علی اصغر عباس ۔۔۔ چوبِ اذیت!

چوبِ اذیت!
۔۔۔۔۔۔۔۔
ہمیں ساربانوں نے
اونٹوں کی کَل سیدھی کرنے پہ رکھا
نکیلیں کھلی چھوڑ دیں
بگولے جو صر صر کی مستی میں جھکڑ بنے
تو پھر ریت کے اونچے ٹیلے بھی
ریگِ رواں ہو گئے
شامِ صحرا بھی سیماب رُو چشمہ سے
آبِ شب تاب کی
مشکیں بھر بھر کے اونٹوں پہ لادے گئی
ساربانوں نے
دردوں کے بندھن جو ڈھیلے کیے
تو پھر دارِ فرقت  میں مہجور بستی کے خیمے
اکھڑنے لگے
برہا  نصیبوں نےاکھڑی طنابوں کو
چوبِ اذیت سے باندھا
تو مہتاب کی بھی رگِ جاں میں
چھبتی ہوئی سوئیاں
ستاروں سے اشکوں کی جھالر بنانے لگیں
فضاے تحیرّ میں وہم و گماں آبدیدہ ہوئے
تو پھر ساربانوں کے اونٹوں کی کَل
اور بیکَل ہوئی
سبک رُو سرابوں کے اسپِِ ِجنوں خیز
یک دم بدکنے لگے
جیسے بستی میں آسیب آنے پہ

گھوڑے لگامیں تڑاتے ہوئے
بھاگتے ہیں
یا
وہ لڑکیاں
جنھیں بھیڑیئے
ہوس ناکیوں کے شراروں میں جھونکیں
تو وہ ریگ زارِ ہزیمت میں
بیکَل ہوئی دوڑتی ہیں
یہاں تک  کہ خود موت ان کو لپک لے
ہمیں ساربانوں نے
اونٹوں کی کَل سیدھی کرنے پہ رکھا
نکیلیں کھلی چھوڑ دیں
اور ہم خوف کی تان پر گیت گاتے ہوئے
خاکی جسموں سے سایوں میں
تبدیل ہونے لگے!

Related posts

Leave a Comment