کرامت بخاری ۔۔۔ قیدی

قیدی
۔۔۔۔
ہر ایک خواہش ہر  ایک کوشش ہر ایک اُلجھن
ہمارے ذہنوں ہمارے جسموں  سے پھوٹتی ہے
کوئی بھی مجرم نہیں ہے شاید مگر سبھی جُرم کر رہے ہیں
ہر ایک ذہن اپنی اُلجھنوں کی
ہر ایک جسم اپنی خواہشوں کی
ازل سے تکمیل کر رہا ہے ، وہ جی رہا ہے
وہ مر رہا ہے
دیارِ ہستی سے غم گزیدہ گزر رہا ہے
یہ جتنے راہوں کے پیچ و خم ہیں
یہ ظلم و جور و جفا ستم ہیں
تمام ذہنوں کی اور جسموں کی اُلجھنیں ہیں
ہم اپنے ذہنوں کے اور جسموں کے کب سے قیدی بنے ہوئے ہیں
ہم اپنے صیاد خود بنے ہیں

Related posts

Leave a Comment