حمد ۔۔۔ نسیمِ سحر

نظر مری پسِ اَفلاک ہو تو حمد کہوں
کچھ اُس کی ذات کا اِدراک ہو تو حمد کہوں

گداز دِل میں ذرا اَور پیدا ہو جائے
یہ آنکھ اَور بھی نمناک ہو تو حمد کہوں

میں ٹوٹ پھوٹ چکا ہوں،سمیٹ لوں خود کو
بحال یہ دلِ صد چاک ہو تو حمد کہوں

ابھی تو ہے مری آنکھوں پہ جہل کا پردہ
مَیں مُنتظِرہوں کہ یہ چاک ہو تو حمد کہوں

زمیں پہ رہ کے مری سوچ کچھ حدود میں ہے
کوئی اشارۂ افلاک ہو تو حمد کہوں

پُرانے لگتے ہیں لفظوں کے پَیرہن مُجھ کو
عطا کوئی نئی پوشاک ہو تو حمد کہوں

نگاہِ خواجۂ لولاک ہو تو بات بنے
عطائے خواجۂ لولاک ہو تو حمد کہوں

گھِرا ہؤا ہوں میں دُنیا کی عِلّتوں میں نسیمؔ
کدورتوں سے یہ دل پاک ہو تو حمد کہوں

Related posts

Leave a Comment