پار سال کا باسی ۔۔۔ ڈاکٹر ستیہ پال آنند

پار سال کا باسی

۔۔۔۔۔۔۔

آنسو بہا بہا کر آنکھیں سوکھ گئی تھیں۔ کھارے پانی کا ایک ریلا کئی دنوں سے اُمڈا چلا آ رہا تھا، لیکن آخری انتم ایک دن اور ایک رات تو قیامت کاطوفان اٹھا تھا اور میں ہسپتال میں انٹینسو کیئر وارڈ Intensive care ward کے کمرے کے باہر بینچ پر بیٹھا سسک سسک کر رونے لگا تھا۔ ایک بوڑھے مردکو یوں بے حال ہوتے ہوئے دیکھ کر تین چار نرسیں میرے ارد گرد اکٹھی ہو گئی تھیں، مجھے دلاسا دیتے ہوئے، تسلی کے الفاظ کہتے ہوئے، میری ڈھارس بندھاتے ہوئے، وارڈ کے کونے میں ایک ایسے کمرے میں لے گئی تھیں، جہاں ہر طرف خاموشی تھی۔ یہ کمرہ اسی (غرض سے ) لیے بنایا گیا تھا کہ مریض کے ساتھ آئے ہوئے لوگ یہاں آرام کر سکیں۔

ایک نرس نے پانی کا گلاس میرے منہ سے لگا کر مجھے گھونٹ گھونٹ پانی پلایا اور ساتھ ہی دوا کی ایک گولی بھی کھلا دی۔( غنودگی کے عالم میں) نیم بے ہوشی کی حالت میں جیسے ہی آنسوؤں کا طوفان کچھ تھما، مجھے نیند سی آ گئی۔ میں وہیں صوفے پر پاؤں پسارے لیٹ گیا۔ مجھے علم نہیں کہ کتنی دیر کے بعد ایک نرس نے مجھے ہلکے سے کندھا جھنجھوڑ کر جگایا۔ امریکن کالی نرس نے ایک ماں کی طرح مجھے صوفے سے اٹھنے میں سہارا دیا اور کہا۔
’’آ جایئے، اب شاید زیادہ دیر نہیں ہے۔ گاڈ، بلیس ہر، اینڈ یُو ٹُو ۔۔۔ !God bless her . and you, too.‘‘
میری بیوی کا سانس جب اُکھڑنے لگا تو کونے میں پڑے آڈیو کیسٹ پر ہلکے سُر میں میرا بائی کا بھجن ’’میرے تو گر دھر گوپال، دوسرا نا کوئی‘‘ بج رہا تھا۔ یہ میری پتنی کا (پسندیدہ) من چاہا بھجن تھا اوراس کے ”کوما” میں چلے جانے کے بعد دن رات لگاتار بج رہا تھا۔ نہ معلوم کب "مانیٹر” کی اوپر نیچے ہوتی ہوئی لہروں کی رفتار ایک سیدھی لکیر میں بدلی ، اس کا دل رُک گیا اور اس کی روح خلا میں تحلیل ہو گئی، جیون کے ٹمٹماتے ہوئے دیے کی لو روشنی کے بے کراں سمندر میں مدغم ہو گئی اور مَیں اس کا داہنا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیے بیٹھا رہ گیا۔ مجھے کچھ بھی نہیں ہوا۔ میری آنکھیں خشک تھیں۔ ان میں کوئی آنسو نہیں بچا تھا۔کھارا پانی البتہ سب کنکر اور کانٹے بہا کر نہیں لے گیا تھا کیونکہ آنکھوں میں کانٹوں کی چبھن اور نمک کی جلن باقی تھی۔

میری بیٹی فارم بھرنے، ڈیتھ سرٹیفیکیٹ کے کاغذات مکمل کرنے اور انڈیا میں کئی جگہوں پر فون کرنے کے لیے اُٹھ گئی تھی۔ میری بیوی کا مردہ جسم اور مَیں کمرے کی کل آبادی تھے۔ اس کا چہرہ ڈھانپ دیا گیا تھا۔ میرا چہرہ سُتا ہوا، سوجا ہوا اور بڑھاپے کی گہری، گھنی جھریوں سے بھرا ہوا تھا۔ بال بکھرے ہوئے تھے اور کئی دن سے شیو نہ کرنے کی وجہ سے داڑھی بڑھی ہوئی تھی۔

تبھی کمرے کا دروازہ کھلا اور وہ داخل ہوا۔
وہ؟ وہ؟ وہ؟ کون وہ؟
میں چونک گیا۔ (نووارد) اندر آنے والا چالیس ایک برس کا اکہرے جسم کا شخص تھا۔ ناک نقشہ جانا پہچانا لگتا تھا۔ پھرتی سے چلنے اور ایک جانے پہچانے ہوئےفیصلہ کن انداز سے قدم بڑھانے کا وطیرہ بھی جیسے میرا دیکھا بھالا ہوا تھا ۔ بڑھی ہوئی شیو، گھنے سیاہ، کنگھی سےبے نیاز بال تھے جن کا ایک گچھا جیسے جان بوجھ کر بار بار ڈھلکتے ہوئے عینک کے شیشوں کو ڈھانپ دیتا تھا۔قمیض کی جیب میں لگا ہوا قلم شایدکسی وقت بے دھیانی میں کَور کے بغیر ٹھونسنے کی کوشش کی گئی تھی، اس لیے سیاہی کا ایک (بد نما ) کالا دھبہ دکھائی دے رہا تھا۔

میں واقعی چونک گیا۔ کچھ ہلا تو بیوی کا بے جان ہاتھ میرے ہاتھ سے چھوٹ گیا۔ میں نے آنے والے کی طرف دیکھا ۔ قمیض کی طرف پھر دھیان گیا تو  اُس کا کالر پھٹا ہوا تھا۔ بدرنگ اور ادھڑی ہوئی تھی۔ ایک جیب سے لٹکتا ہوا، مُڑا تُڑا ایک پیپر نیپکن اور تمباکو کے پائپ کی نلی ۔۔۔ بار بار انہیں جیب سے کھینچ کر باہر نکالنے کی کوشش کر رہا تھا۔ پاؤں میں سنیکربوٹ تھے جو بارش، برف اور راہوں کی ریت بجری سے لڑ جھگڑ کر اس حالت تک پہنچ چکے تھے کہ پاؤں، جوجرابوں کے بغیر تھے، کونوں کھدروں سے جھانکتے ہوئے دکھائی دیتے تھے۔ مجھے ایک سگریٹ کا بجھا ہوا ٹکڑا بھی نظر آیا جو سنیکر پر رگڑ کر بجھاتے ہوئے وہیں ادھڑے ہوئے تسمے سے الجھ کر پھنسا ہوا رہ گیا تھا۔
میں نے نظر اٹھائی۔ ’’تم؟ تم؟‘‘ میں نے ہکلاتے ہوئے کہا۔
اس نے ایک سرسری نظر سے مجھے دیکھنے کے بعد ہسپتال کے اس کمرے کا جائزہ لیا جس کی روزانہ کی فیس دو سو ڈالر تھی، جس میں مریض کے بیڈ کے دائیں بائیں دو ٹیلیفون تھے، سامنے دیوار پر ایک فلیٹ ٹی وی تھا، جس کے ریموٹ کے بٹن اس کنٹرول راڈ میں تھے جس سے نرس کو بلایا جا سکتا تھا، بیڈ کو آرام کے لیے اوپر نیچے کیا جا سکتا تھااور بلبوں کی روشنی ہلکی نیلی یا سبز کی جا سکتی تھی یا کونے میں پڑے آڈیو کے کیسٹ بدلے جا سکتے تھے۔ پھولوں  کی طرف بھی اس کی نظرگھومی، چابیوں کے تین گچھوں کو بھی اس نے غور سے دیکھا جن میں میری ، میری بیٹی کی اورہم دونوں کے  گھروں کی چابیاں تھیں۔

جب اس نے نظریں میری طرف موڑیں تو ان میں ایک افسرانہ رعب داب تھا، ایک حکم چلانے والے کا اشارہ تھا، ایک فرمان تھا جسے ماننا میرے لیے ضروری تھا، مجھے لگا کہ اگر وہ منہ سے کچھ کہے گا تو مجھے اس کا حکم ماننے میں آنا کانی نہیں ہو گی۔
کیا۔۔۔؟ کیا۔۔۔؟‘‘ میرا ہکلانا اب شدید تر ہونے لگا تھا۔

وہ کرسی کھینچ کر اس کی پیٹھ پر دونوں ہاتھ ٹکائے ہوئے کھڑا ہو گیا۔ ایک بار پھر اس نے کمرے میں دائیں بائیں دیکھا۔ مجھ پر لمحہ بھر کے لیے اس کی نظریں رکیں۔ پائپ اور تمباکو کی ڈبیا اور لائٹر اس نے جیب سے کھینچ کر نکالے اور پھر جیسے پائپ بھرنے سے پہلے اسے کچھ یاد آ گیا ہو، اس نے مسکرا کر پھر انھیں جیب میں ٹھونس لیا۔سامنے دیوار پر "سگرٹ پینا منع ہے” کا تختہ جگمگا رہا تھا۔کچے تمباکو کی کچھ پتیاں شیشے کی طرح صاف فرش پر گر کر بکھر گئیں، لیکن اس نے ان کی کوئی پروا نہیں کی۔

مجھے لگا جیسے وہ اب مجھ سے کچھ کہے گا۔ اس نے مقررانہ انداز میں ۔۔۔ ایک ہاتھ اوپر اٹھایا، اپنی انگشتِ شہادت کو گول گھما کر مجھ پر مرکوز کیااور کچھ کہنے کے لیے ہونٹ کھولے۔
تبھی دروازہ کھلا اور میری بیٹی اندر داخل ہوئی۔ اس کے ساتھ ایک ڈاکٹر بھی تھی۔ ” ڈیڈی! ” اس نے کہا، ” آپ کو ان فارموں پر دستخط کرنے ہیں، فارم میَں نے بھر دیے ہیں۔”
میں نیم بے ہوش سا بیٹھا رہا۔ مجھے پتہ نہیں، میں نے اس سے کیا کہا، کچھ کہا بھی یا نہیں۔ کانپتے ہوئے ہاتھوں سے میں نے فارموں کا پلندہ پکڑا، لیکن فارم ہاتھوں سے گر کر فرش پر بکھر گئے۔
’’Oh, My poor Dad !‘‘ میری بیٹی نے ایک ماں جیسی ممتا بھری نظروں سے میری طرف دیکھا اور فرش پر اکڑوں بیٹھ کر کاغذ اکٹھے کرنے لگی۔ میں ایک پاگل سا کبھی اس کی طرف اور کبھی ڈاکٹر کی طرف دیکھتا رہا۔ مجھے جیسے کچھ یاد ہی نہیں تھا کہ میں کہاں ہوں اور کیا کر رہا ہوں۔ ایک مشین کی طرح میں نے، جہاں جہاں میری بیٹی نے انگلی رکھی، دستخط کر دیے۔ بعد میں اپنے کالم میں ڈاکٹر نے دستخط کیے، ایک مہر لگائی، میرے کندھے کو تھپتھپایا اور کہا، ’’ sympathies are with you, take care ! ‘‘
جب ان کے جانے کے بعد دروازہ پھر بند ہو گیا تو مجھے جیسے ہوش آیا، تڑپ کر میں نے اس طرف دیکھا، جہاں وہ دو منٹ پہلے کھڑا تھا، لیکن وہاں کوئی نہیں تھا۔ وہ جگہ خالی تھی۔ جس جگہ کچے تمباکو کی کچھ پتیاں گر کر بکھر گئی تھیں، وہاں بھی فرش شیشے کی طرح چمک رہا تھا، شاید اس نے جانے سے پہلے احتیاط سے انہیں اکٹھا کر کے جیب میں رکھ لیا تھا۔ اس کے کمرے میں آنے، کرسی کی پشت پر ہاتھ رکھ کر کھڑا ہونے، پائپ بھرنے، تمباکو کی پتیاں گرانے کے کوئی آثا ر بادی النظر میں نہیں نظر آ رہے تھے۔ وہ آیا بھی تھا، اور چلا بھی گیا تھا۔

(۲)

آج میری بیوی کی وفات کو تین دن ہو چکے ہیں۔ الیکٹرک مشین میں اس کا جسد خاکی سپردِ آتش کیا جا چکا ہے۔ شام ہو گئی ہے۔ ایک ایک کر کے دوست، رشتہ دار، سگے سمبندھی، سب اپنی اپنی کاروں میں رخصت ہو چکے ہیں۔ میں اپنے گھر میں ایک آرام دہ گدے دار کرسی پر بیٹھا ہوا ہوں۔۔۔ ابھی ابھی میری بیٹی مجھے کچھ کھلا کر، آرام کرسی پر بٹھا کر برانڈی کی ایک ہلکی ڈرنک دے کر خود بھی رخصت ہو گئی ہے۔ اس کے کہے ہوئے الفاظ اب بھی میرے کانوں میں گونج رہے ہیں۔ "یہ پہلی رات ہے، ڈیڈی! اب آپ اس بڑے گھر میں تنہا ہوں گے۔ ممی رخصت ہو چکی ہیں۔ نرس بھی اس کے بعدنہیں آئے گی۔ اپنا خیال رکھیں اور یاد سے جا کر بیڈ پر سو جائیں۔ کرسی پر اونگھتے ہوئے بیٹھے ہی رات نہ کاٹ دیں۔ آپ کو اپنی صحت کا بھی خیال رکھنا ہے۔”

مجھے علم نہیں کہ کب نیند میں ڈوبے ہوئے مجھے باہر کا دروازہ کھلنے کی آواز آئی ہے۔ میرے تحت الشعور میں جیسے کسی نے کہا ہے، "کوئی اپنا ہی ہو  گا۔ دروازہ تو باہر سے کوڈنمبر کے دبائے بغیر نہیں کھل سکتا۔” پھر کسی کے مضبو ط قدموں سے قالین پر چلنے کی آواز آئی ہے۔ کوئی نپے تلے قدموں سے چلتا ہوا میرے سامنے آ کر کھڑا ہو گیا ہے۔
میں نے آنکھیں کھولی ہیں ۔ کانپتے ہوئے ہاتھوں سے برانڈی کا خالی گلاس  سٹول پر رکھ دیا ہے۔ نظر اٹھا کر اوپر دیکھا ہے۔مجھے ایک جھرجھری سی آئی ہے۔
وہ اسی افسرانہ انداز سے میری طرف ٹک ٹک گھور رہا ہے۔ پھر اس نے جیب سے تمباکو، پائپ اور سگریٹ لائٹر نکالے ہیں۔ آہستگی سے اس نے تین چار کشوں میں پائپ سلگایا ہے۔ تمباکو کا ٹِن اور لائٹر پھٹی ہوئی جینز کی جیب میں احتیاط (ساودھانی) سے رکھ لیے ہیں۔ دھوئیں کے پھیلتے، بڑھتے ہوئے مرغولوں سے چھن چھن کر آتی ہوئی اس کی نظر میرے چہرے پرٹکی ہوئی ہے۔”کیا یہ تیس بر س پہلے کا میں خود ہوں؟ ” میرے  ذہن میں سوال اُبھرا ہے۔ خود سے کوئی جواب نہ پا کر میں پھر اس کی طرف دیکھتا ہوں۔
وہ کچھ کہہ رہا ہے۔
میں چپ چاپ بیٹھا سن رہا ہوں۔۔۔
اس کی آواز جیسے چالیس برسوں کا طویل فاصلہ طے کر کے موبائل فون کی مانند کبھی ٹوٹتی، کبھی ابھرتی، کبھی صاف، کبھی مدھم سی مجھ تک پہنچ رہی ہے۔اس آواز میں وہی رعب داب ہے جو میری آواز میں چالیس برس پہلے تھا، جب میں بھارت میں تھا۔”تمہاے بچے بڑے ہو کر اپنے اپنے شہروں میں، اپنے اپنے گھروں میں  بس گئے۔ تمہارے پاؤں کی آخری زنجیر ایک بیوی تھی، وہ بھی اب نہیں رہی۔ یہ گھر، یہ لمبی سی قیمتی کار،یہ ساز و سامان، یہ دیواروں پر لٹکی ہوئی پینٹنگز، ہر ایک کمرے میں ایک ٹیلیفون اور وی سی آر، آرام دہ زندگی گزارنے کے سب سادھن ۔۔۔ یعنی ایک لمبی Solitary Imprisonment (قیدِ تنہائی) تمہارے سامنے ہے۔ کیا تم یہ قید کاٹو گے یا اپنی پینتیس چالیس برس پرانی آزاد زندگی میں لوٹ آؤ گے۔ تمہاری ٹوٹی پھوٹی سائیکل اب تک تمہارے لدھیا نہ کے گھر میں محفوظ پڑی ہے، تمہارا لمبریٹا  سکوٹر جسے تم نے 1965ء میں خریدا تھا، اب بھی ٹوٹا پھوٹا ہوا تمہارے بھائی کے گھر میں پڑا ہے اور مرمت ہو سکتا ہے۔ لوکل بسیں اب بھی دہلی میں چلتی ہیں۔ چنڈی گڑھ اب بھی بھرا پرا شہر ہے ۔۔۔ چھوڑو ان جھمیلوں کو، اور لوٹ جاؤ  اپنی پرانی زندگی کی طرف ۔۔۔میں تمہارا انتظار کروں گا ۔۔۔”اور دیکھو” ۔۔۔ وہ کچھ لمحوں کے   بعد پھر بولا "اگر اب تک تم پہچان نہیں پائے کہ میں کون ہوں تو اس کے بعد کوشش بھی نہ کرنا ۔۔۔ ہر ایک شخص کا ماضی یوں جوگیوں کی طرح اس کا پرانا چولا پہنے ہوئے اس سے ملنے نہیں آتا ۔۔۔ جیسے کہ میں آیا ہوں‘‘

جانے کب مجھے نیند آ گئی اور میں سو گیا۔
صبح ایک نئے عزم کے ساتھ اٹھا ہوں۔ میرا ارادہ ڈانواں ڈول نہیں ہے۔ میرے پاؤں لنگ نہیں ہیں اور ملک خدا تنگ نہیں ہے!

Related posts

Leave a Comment