ستیہ پال آنند ۔۔۔ پیش و پس

پیش و پس ۔۔۔۔۔۔۔ مَیں کہ ناخوب تھا خوب سے خوب تَر کی طرف جب چلا، تو کُھلا پیش تھے میرے اپنے قدم پر سفر پس کی جانب اُلٹ پیچ میں منقلب تھا کہ پنجے مرے ایڑیوں کی جگہ بست تھے اور پرانی، دریدہ پھٹی ایڑیاں پائوں کی راہبر، سامنے منسلک تھیں گھسٹتی ہوئیں! خوب سے خوب تر کیسے بنتا کہ مَیں کل کا یاجوج ماجوج انساں بنا تو بھی وحشی کا وحشی رہا! ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مجموعہ کلام: جو نسیمِ خندہ چلے (منتخب نظمیں) پبلشر: پبلشرز اینڈ ایڈورٹائرز، دہلی سنِ اشاعت:…

Read More

پار سال کا باسی ۔۔۔ ڈاکٹر ستیہ پال آنند

پار سال کا باسی ۔۔۔۔۔۔۔ آنسو بہا بہا کر آنکھیں سوکھ گئی تھیں۔ کھارے پانی کا ایک ریلا کئی دنوں سے اُمڈا چلا آ رہا تھا، لیکن آخری انتم ایک دن اور ایک رات تو قیامت کاطوفان اٹھا تھا اور میں ہسپتال میں انٹینسو کیئر وارڈ Intensive care ward کے کمرے کے باہر بینچ پر بیٹھا سسک سسک کر رونے لگا تھا۔ ایک بوڑھے مردکو یوں بے حال ہوتے ہوئے دیکھ کر تین چار نرسیں میرے ارد گرد اکٹھی ہو گئی تھیں، مجھے دلاسا دیتے ہوئے، تسلی کے الفاظ کہتے…

Read More

آتش فشاں ۔۔۔ ستیہ پال آنند

آتش فشاں ۔۔۔۔۔۔ ذہن کے گہرے اندھیرے زخم کا اندھا دہانہ بھر گیا اور درد قدرے کم ہوا تو میں نے سوچا آنے والے دن یقیناً زخم کے احساس کو بھی مندمل کرنے میں میرا ساتھ دیں گے آنے والے دن بھلا کب جانتے تھے زخم کے اندر نہاں سیال لاوے کا جو بحرِ بے کراں ہے وہ دہانے کو کسی آتش فشاں کی آنکھ کی مانند یوں کھولے گا، ساری وادیاں، پگ ڈنڈیاں، چٹیل ڈھلانیں غرق ہو جائیں گی ۔۔۔ سارا ذہن خود اِک زخم بن جائے گا ۔۔۔…

Read More

ستیہ پال آنند کی نظم نگاری ۔۔۔ ڈاکٹر وزیر آغا

ستیہ پال آنند کی نظم نگاری ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ستیہ پال آنند کی اُردو نظموں کا ایک خاص وصف یہ ہے کہ ان میں امیجز اور ان سے جڑے ہوئے معانی سیدھی لکیر اختیار نہیں کرتے۔ وہ قدم بہ قدم قوسیں بناتے اور یوں اپنی ہی جانب مڑتے چلے جاتے ہیں۔ معانی کا یہ سفر ہمہ وقت محسوسات کے زیریں آہنگ سے رس کشید کرتا ہے جس کے نتیجے میں ان کی نظمیں جمالیاتی حظ بہم پہنچانے میں بھی کامیاب ہیں۔ یہ بات اکثر دیکھنے میں آئی ہے کہ نظم کی بنت…

Read More

"دست برگ” اور ”رن آن لائنز” کا چلن ۔۔۔ ڈاکٹر کالی داس گپتا رضا

مکتوب بنام ستیہ پال آنند ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ "دست برگ” اور ”رن آن لائنز” کا چلن ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ممبئی ۲۲ ِاپریل ۱۹۹۱ء محبی آنند صاحب! تسلیمات آپ نے مجھ ناچیز کو یاد فرمایا۔ بے حد ممنون ہوں۔ میں ماہرِ عروض نہیں ہوں۔ جو کچھ بھی استادِ محترم ابوالفصاحت پنڈت لبھورام جوش ملسیانی کے قدموں میں بیٹھ کر سیکھا، اسی سے مشقِ سخن ہوئی۔ کمال کرتارپوری بھی میرے بزرگوں میں سے تھے۔ آپ نے ان کا ذکرِ خیر کیا، گویا مجھے میری پرانی زندگی کی یاد دلا دی۔ مجھےتین چار بار آپ سے شرفِ…

Read More