ستیہ پال آنند کی نظم نگاری ۔۔۔ ڈاکٹر وزیر آغا

ستیہ پال آنند کی نظم نگاری
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ستیہ پال آنند کی اُردو نظموں کا ایک خاص وصف یہ ہے کہ ان میں امیجز اور ان سے جڑے ہوئے معانی سیدھی لکیر اختیار نہیں کرتے۔ وہ قدم بہ قدم قوسیں بناتے اور یوں اپنی ہی جانب مڑتے چلے جاتے ہیں۔ معانی کا یہ سفر ہمہ وقت محسوسات کے زیریں آہنگ سے رس کشید کرتا ہے جس کے نتیجے میں ان کی نظمیں جمالیاتی حظ بہم پہنچانے میں بھی کامیاب ہیں۔

یہ بات اکثر دیکھنے میں آئی ہے کہ نظم کی بنت کاری یا تو بڑے بڑے روزن بناتی ہے یا گنجان ہو کر صرف موہوم سی درزوں کو جنم دیتی ہے مگر ستیہ پال آنند نے بنت کاری کے ان دونوں وظائف سے ہٹ کر نظم کی بنت کاری اس طور کی ہے کہ متن سے معانی کا انشراح نہ تو چھلکنے کا منظر دکھاتا ہے اور نہ رِستے چلے جانے کا، یعنی نہ تو معانی مبسوط اور متعین بیانیے میں ڈھلتے ہیں نہ گھنے ابہام کی نذر ہو جاتے ہیں۔ ان کی نظم اتنا ہی دِکھاتی ہے جتنا معانی کے سیال وجود کو منکشف کرنے کے لیے ضروری ہے۔ یوں ان کی نظموں میں معانی ایک طرح کی نامیاتی تخلیق کاری کا مظاہرہ کرتے ہیں اور قاری ان کے ساتھ ہم رشتہ ہو کر خود بھی تخلیق کاری کا مظاہرہ کرنے لگتا ہے۔ ستیہ پال آنند ان معدودے چند نظم گو شعراء میں سے ہیں جو قاری کو محض صارف کا درجہ نہیں دیتے، اُسے تخلیق کار کے مقام پر فائز بھی کرتے ہیں۔

ستیہ پال آنند کی نظموں کا ایک اور اہم وصف یہ ہے کہ ان میں شاعر نے اساطیر یا مثالی حکایات یعنی Parables کو ازسرِ نو تخلیق کیا ہے۔ شاعری میں محض اساطیر یا مثالی حکایات کا حوالہ دینے سے بات نہیں بنتی۔ اس سے شاعر کے مطالعے کی وسعت کا اندازہ تو ہو جاتا ہے لیکن پتا نہیں چلتا کہ وہ اس حوالے کو اپنے تجربے کا حصہ بھی بنا سکا یا نہیں۔ ستیہ پال آنند نے جب اساطیر اور مثالی حکایات کی تخلیقِ نو کی ہے تو انھیں اپنے شعری تجربے کے مدار میں لا کر ان کی قلبِ ماہیت پر انگلی رکھ دی ہے اور یوں اپنی نظم میں لطیف اَبعاد کا اضافہ کر دیا ہے۔ مگر ستیہ پال آنند نے اس عمل سے ہٹ کر اپنے باطن کے اس منطقے کو بھی مَس کیا ہے جو Meta -Myth کا دیار ہے۔ یعنی جہاں اساطیر اور مثالی حکایات کی لانگ گرامر یا سسٹم موجود ہے۔ ایسا کر کے ستیہ پال آنند نے مرتب فکشن سے استفادہ کرنے یا اس کی تخلیقِ نو کے تجربے سے گزرنے کے علاوہ اپنے طور پر نئی فکشن بھی تخلیق کی ہے جو امیجزکی ان کترنوں کی صورت میں ان کے شعری اسلوب میں صاف دکھائی دیتی ہے جن سے خود اساطیر اور مثالی حکایات مرتب ہوئی تھیں۔ اس عمل نے ان کے شعری متن کے معیار کو بہت بلند کر دیا ہے۔

اس میں کوئی کلام نہیں کہ آج ستیہ پال آنند جدید اُردو نظم کے ایک بڑے شاعر کی حیثیت سے سامنے آ چکے ہیں، اُن کا کمال یہ ہے کہ زندہ رہنے والی نظمیں تخلیق کرنے کے علاوہ انھوں نے نظم کے پرت کھولنے اور قاری کو نظم کے چھپے ہوئے ابعاد سے آشنا ہونے کی تربیت بھی دی ہے۔ اُردو دنیا کو نظم فہمی کی تربیت مہیا کر کے ستیہ پال آنند نے ایک اہم خدمت انجام دی ہے۔  

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ستیہ پال آنند کی نظم نگاری
مرتب: ڈاکٹر اے عبداللہ
۲۰۰۸ء

Related posts

Leave a Comment