اک کتھا انوکھی ۔۔۔ ڈاکٹر وزیر آغا

اک جنگل تھاگھنی گھنیری جھاڑیوں والابہت پرانا جنگلجس کے اندر اک کُٹیا میںاپنے بدن کی چھال میں لپٹااپنی کھال کے اندر گم صُمجانے کب سےکتنے جگوں سےپھٹے پرانے چوغے پہنےوہ اک خستہ بیج کی صورتبے سُدھبے آواز پڑا تھا! بادل آتےکڑک گرج کر اُسے بلاتےبِن برسے ہی پچھم کی جانب مڑ جاتےہوا دہکتی آنکھیںٹھنڈی پوریں لے کراس کے چاروں جانب پھرتیپر کیا کرتیگیدڑ، مور، ہرن اور بندرسب کُٹیا کے باہر ملتے، سبھا جماتےاس سے کہتے:’’اب تو اُٹھ جاآخری جُگ بھی بیت چکاسورج میں کالک اُگ آئیچاند کا ہالہ ٹوٹ گیادیکھ…

Read More

ستیہ پال آنند کی نظم نگاری ۔۔۔ ڈاکٹر وزیر آغا

ستیہ پال آنند کی نظم نگاری ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ستیہ پال آنند کی اُردو نظموں کا ایک خاص وصف یہ ہے کہ ان میں امیجز اور ان سے جڑے ہوئے معانی سیدھی لکیر اختیار نہیں کرتے۔ وہ قدم بہ قدم قوسیں بناتے اور یوں اپنی ہی جانب مڑتے چلے جاتے ہیں۔ معانی کا یہ سفر ہمہ وقت محسوسات کے زیریں آہنگ سے رس کشید کرتا ہے جس کے نتیجے میں ان کی نظمیں جمالیاتی حظ بہم پہنچانے میں بھی کامیاب ہیں۔ یہ بات اکثر دیکھنے میں آئی ہے کہ نظم کی بنت…

Read More