ناصر علی سید ۔۔۔ دنیا وا لے تو فقط نام و نسب جانتے ہیں

دنیا وا لے تو فقط نام و نسب جانتے ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بہت سی دل دکھانے والی ساعتوں سے بوجھل بوجھل دوہزاربیس2020 کے کٹھور سال کا کیلنڈر آج شام کے بعد دیواروں سے ہٹ جائے گا۔ ہر چند اب کیلنڈر کی روایت بھی ہمارے ہاتھ لگی ہوئی ایک چھوٹی سی ڈیوائس (جوموبائیل یا سیل فون کہلاتی ہے)نے کم و بیش ختم کردی ہے، جب چاہے کسی بھی سال کی کوئی تاریخ دیکھ لیں جب چاہیں آنے والی کوئی بھی اہم تاریخ محفوظ کر لیں اور یہ ڈیوائس آپ کو یاد دلا دے گی۔ اب دیوار پر نہ کیلنڈر کی اور نہ ہی کسی خاص تاریخ کے گرد سرخ روشنائی سے دائرہ لگانے کی ضرورت ہے۔ سال گزشتہ اب چند گھنٹوں بعد ہی قصہ پارینہ ہو جائے گا مگر جو زخم دے گیا ہے وہ بھرتے بھرتے بھر بھی جائیں تو داغ ان کی یاد دلاتے رہیں گے۔ سال گزشتہ کا عمومی روّیہ شوکت واسطی کے اس مصرع کی یاد دلاتا رہا کہ ” لا لہ گوں بھائے ہر اک زخم کا چھلنا ہر جا“ سبز زخموں کو چھلتا اور سینے کو لالہ گوں بناتا ہوا یہ سال تاریخ کو کئی حوالوں سے بہت یاد رہے گا خصوصاََ انسان کی بے بسی پر وبا کے دنوں کی ہنسی تو بھلائے نہیں بھلائی جا سکے گی۔ اور کون جانے کہ نئے سال بھی وہ ہار مانے گی یا نہیں، پھر بھی مجھے یقین ہے کہ نئے سال کے لئے نئے سرے سے اپنی اپنی ترجیحات کی فہرستیں ترتیب دی جائیں گی۔ بہت سوں کے نزدیک یہ محض ہندسوں کی تبدیلی ہے، کل غالب کی خوش گمانی نے سال نو کے آغاز پر ان سے کہلایا تھا کہ
دیکھئے پاتے ہیں عشاق بتوں سے کیا فیض
اک برہمن نے کہا ہے کہ یہ سال اچھا ہے
مگر ایسے ہی کسی سال کے اختتام پر احمد فراز اس برہمن کو یہ کہتے ہوئے ڈھونڈتا پھر رہا تھا کہ
نہ شب و روز ہی بدلے ہیں نہ حال اچھا ہے
کس برہمن نے کہا تھا کہ یہ سال اچھا ہے
برہمن ہو کہ منجّم،پنڈت ہو یا کاہن سال ِ نو کے بارے میں پوچھنا تو پڑتا ہے خود میں نے بھی یہی کہا ہے
بھیک جو مانگنے نکلوں گا تو در کتنے ہیں
پوچھ کاہن سے نئے سال سفر کتنے ہیں
اور اسی سانس میں یہ بھی کہا ہے کہ
جب ملے جنگ سے فرصت تو ذر ا گن آ کر
فا ختاؤں کے یہ جھلسے ہوئے پر کتنے ہیں
سیانے کہتے ہیں کہ ”کل، بہر حال ایک نیا دن ہو گا“ اور کل تو واقعی نئے سال کے پہلے مہینے کا پہلا دن ہو گا، نیا دن نئی توقعات اور ترجیحات کی نئی فہرست کے ساتھ لبوں پر اس دعا کے پھول کھلتے رہیں گے کہ اے رب ّ ِ جلیل آنے والی ساری ساعتوں کو اپنی مخلوق کے لئے باعث ِ رحمت و برکت بنادیں (آمین) کار ادب تو خیر سال گزشتہ میں بھی جاری رہا اور جب مل بیٹھنے کے اسباب نہ رہے تو ”ایک در بند تو سو در کھلے“ کے روزمرہ کو بروئے کار لاتے ہوئے گھر بیٹھ کر ”آن لائن“ محفلیں جمانی شروع کر دیں، اور سچ یہ ہے کہ خوب رونقیں رہیں۔ اور بہت سی آن لائن اجلاس منعقد کرنے والی تنظیموں سے یار لوگوں نے یہ بھی کہہ دیا کہ اگر یہ مشکل دور ختم بھی ہو جائے تو گاہے گاہے آن لائن نشستوں کا اہتمام ضرور کیا جائے،ویسے بھی آن لائن نشستوں سے فائدہ یہ ہوا ہے اور ہوتا رہے گا کہ دنیا بھر کے قلمکار بھلے سے ”ایک پیج“ پر ہوں نہ ہوں ایک سکرین پرتو یکجا ہوں گے۔ پشاور کے قلم قبیلہ کی کم کم تنظیں اپنے اجلاس آن لائن کر سکیں، البتہ اکادمی ادبیات باب پشاور کی کچھ نشستیں اور تخلیق انٹرنیشل کا مشاعرہ ضرور گزشتہ سال آن لائن ہوا. ان دونوں اداروں کو ڈاکٹر ضیغم حسن کی خدمات حاصل تھیں۔ البتہ پشتو کی کچھ ادبی تنظیموں کے ساتھ ساتھ پشاور کی ربع صدی سے فعال ادبی تنظیم بزم بہار ادب نے اپنی ماہانہ نشستیں برقرار رکھیں .یہ نشستیں بہار ادب کے عظیم نیازی کی رہائش گاہ پر ہوتی ہیں، اور عظیم نیازی کو اختر سیماب ،فاروق جان بابر آزاد اور پروفیسر اشد ملک کا تعاون حاصل ہے، اسی طرح ایک آدھ مختصر تعطل کے ساتھ حلقہ ارباب ذوق پشاور کی ہفت روزہ نشستیں بھی باقاعدہ اردو سائنس بورڈ میں ہر منگل کی شام کو ہوتی رہیں، ہر چند کہ باقی شہروں کی نسبت پشاور کے حلقہ ارباب ذوق کو کم کم اپنے سینئر قلمکاروں اور اساتذہ کا ساتھ میسر ہے، البتہ شاعر و افسانہ نگار اور صوفی دانشور اقبال سکندر ، شاید ہی سال بھر کی نشستوں میں سے کسی نشست میں غیر حاضر ہوئے ہوں، کبھی مجھے لگتا ہے کہ شاید پشاور کے احباب کا مزاج ان تنقیدی نشستوں کے ساتھ لگا نہیں کھاتایا پھر ان کی ترجیحات میں کار ادب کہیں بہت نیچے جا چکا ہوتا ہے، کیونکہ بزم بہار ادب ہو،تخلیق انٹر نیشنل، حلقہ ارباب ِ ذوق یا کوئی اور تنظیم ان کی محافل میں حاضری بہت کم ہو تی ہے، پشاور کے برعکس مردان کی پشتو اور اردو ادبی نشستیں پر ہجوم ہوتی ہیں،مجھے محبان اردو مردان کی اور پت پختو ادبی و ثقافتی جرگہ ہوتی مردان کے دو اجلاسوں میں شرکت کا موقع ملا ہے یہ دونوں اجلاس کتابوں کی رونمائی اور پزیرائی کے لئے مختص تھے دونوں میں قلم قبیلہ مردان کے ا حباب کی شرکت بھر پور تھی، چوپال ہوتی مردان میں ہونے والی تقریب تو کئی گھنٹوں پر محیط تھی مگر پنڈال آخر تک بھرا رہا۔ اس طرح پاکستان کے دیگر چھوٹے بڑے شہروں میں ہونے والی ادبی تقاریب میں بھی حاضری آنکھوں کو خیرہ کرتی ہے، پشاور کے حلقہ ارباب ذوق میں سال گزشتہ کی آخری سہ ماہی میں البتہ نوواردان ادب کی بدولت بہت رونق رہی بلکہ پشاور کے باہر سے بھی لوگ صرف اس نشست کے لئے آئے۔ ان میں اکوڑہ خٹک سے شفقت قریشی بھی شامل تھے، جبکہ اس سال کے اوائل میں قرب و جوار سے اور ایبٹ آباد سے بھی دوست شریک ہوتے رہے۔ پشاور سے اس سال اردو کی کتابیں بھی بہت کم شائع ہوئیں، ادب سرائے تک پہنچنے والی کتب کا ذکر ان کالموں میں ہوتا رہا، دسمبر میں ملنے والی ایک کتاب ڈاکٹر بسمینہ سراج کی ”سفیر سخن۔بشریٰ فرخ“ کی بھی ملی ہے، یہ ایک طرح سے ممتاز شاعرہ اور سفر نامہ نگار بشریٰ فرخ کو خراج تحسین پیش کرنے کی ایک پرخلوص دستاویز ہے، بشری فرخ نے اس کتاب کے فلیپ میں بالکل درست لکھا ہے کہ ” آج کل کے دور میں اپنی کتاب چھپوانا بھی ہر لحاظ سے ایک مشکل کام ہے اور بسمینہ نے یہ مشکل کام میرے لئے کیا“ کتاب کے بیک ٹائٹل پر ڈاکٹر یوسف خشک کے تاثرات اور کتاب میں بسمینہ سراج کا مضمون شامل ہے جس میں انہوں نے بشریٰ فرخ کے کام اور ان کی شخصیت کا تفصیل سے ذکرکرتے ہوئے لکھا ہے کہ کیونکر ان کے ذہن میں انہیں اس کتاب کا تحفہ پیش کرنے کا خیال آیا ہے، اس کتاب میں بشریٰ فرخ پر لکھے ہوئے احباب کے ان مضامین کو مرتب کیا ہے جو ان کی کتابوں میں ہیں یا ان کے لئے تقاریب میں پڑھے گئے ہیں۔ یوں گلہائے رنگا رنگ سے اس کتاب کا گلدستہ بنایا گیا ہے جس سے محبت،خلوص اور عقیدت کی خوشبو پڑھنے والے کو بھی معطر کر دیتی ہے۔ یہ کتاب صدر شعبہ اردو بینظیر بھٹو خواتین یونیورسٹی پشاور سے رابطہ کر کے حاصل کی جاسکتی ہے، ایک اور عمدہ کتاب ایبٹ آباد کے محمد جمیل عباسی کے محبی مشتاق شباب کے توسط سے مو صول ہوئی ہے، اس کتاب میں بھی بہت محبت سے ادب دوستوں کا تعارف اور ذکر کیا گیا ہے جن کی قربت اور دوستی جمیل عباسی کے ساتھ ساتھ مہ و سال بتاتی رہی ہے، یوں کہیے کہ اس کتاب میں ان دوستوں کا ذکر جن کے قریب جمیل عباسی رہے ہیں اور ان کا بھی جو جمیل عباس کے قریب رہے ہیں۔ اس طرح خیبر پختونخوا اور خصوصاََ ایبٹ آبا د کے احباب کے بارے میں مختصر مگر بھرپور تعارف کے حوالے سے ”یاد داشتیں“ خاصی اہمیت کی حامل کتاب ہے اس میں مجھے بہت سے احباب کے بارے میں پڑھ کر بہت اچھا لگا جن میں پروفیسر یحییٰ خالد، جہانزیب ملک، ذاکر میر مغل، راحیل عباس بارکزئی،قاضی زبیر سمیت بہت سے احباب شامل ہیں یہ کتاب جمیل عباسی سے 0333 5062867 پر کال کر کے منگوائی جا سکتی ہے۔ ایک بہت ہی عمدہ نعتیہ مجموعہ ”حرف ہائے رنگ و بو“ ملا ہے یہ تونسہ کے بہت عمدہ لب و لہجے کے شاعر سید طاہر (سید ساجد مجید) کا نعتیہ مجموعہ ہے بیک ٹائٹل پر دلاور علی آزر کے سید طاہر کےحوالے سے تاثرات اور کتاب میں ماجد خلیل، محمد سعداللہ کیتھران اور واجد امیر کے مضامین شامل ہیں جو سید طاہر کے فن اور شخصیت کا تعارف ہی نہیں ان کی نعت گوئی کے فکری نظام کو سمجھنے میں مدد بھی دیتے ہیں۔ جدید حسیات سے مملو یہ محبت اور عقیدت کا انمول تحفہ ” حرف ہائے رنگ و بو“ 0333 671 9991 پر رابطہ کر کے حاصل کیا جا سکتا ہے۔ جس میں ایسے عمدہ اشعا قدم  روک روک لیتے ہیں
واقف ِ قلب ہیں بس آپ ہی میرے آقا
دنیا والے تو فقط نام و نسب جانتے ہیں

Related posts

Leave a Comment