نیر اقبال ہارون ۔۔۔ حضرت سیّد وجیہ السیما عرفانی چشتیؒ ۔۔۔ شخصیت اور تعلیمات

حضرت سیّد وجیہ السیما عرفانی چشتیؒ ۔۔۔ شخصیت اور تعلیمات

حضرت بابا سیّد محمد وجیہ السیما عرفانی ؒ کا 4اکتوبر 1920ء کو تحصیل گوجر خان ضلع راولپنڈی کے ایک گاﺅں ”لودھن“ کے ایک سیّدگھرانے میں جنم ہوا۔ آپ کے والد گرامی کا اسم گرامی حضرت سّید محمد ہادیؒ تھا۔ جو ایک بلند پایا عالم دین اور شیخ طریقت تھے۔ بابا عرفانی صاحبؒ مادرزادولی تھے۔ آپ کی پیدائش سے پہلے آپ کے دادا محترم حضرت حاجی فضل الدینؒ کو خواب میں حضرت خواجہ معین الدین چشتی ؒ نے بابا حضور ؒ کی ولادت کی خوشخبری دی اور ساتھ نام بھی تجویز فرمایا۔ یہاں تک کہ آپ کے نام کے ہجے بھی سمجھائے۔آپ نے نوعمری ہی میں نو ماہ کی قلیل مدت میں قرآن پاک حفظ کر لیا اور اس کے بعد درس نظامی کا کورس مکمل کیا۔ اس کے بعد سکول اور کالج کی تعلیم مکمل کی۔بابا صاحب ؒ شروع میں باقاعدہ بیعت نہیں لیا کرتے تھے۔ 13مارچ1977ءکو حضرت سیّد تلطف حسین معینی ؒ (جو کہ خواجہ معین الدین چشتی اجمیری ؒ کی اولاد سے تھے) شملہ پہاڑی پر تشریف لائے اور بابا حضور ؒ کو اپنی موجودگی میں باقاعدہ بیعت کا سلسلہ شروع کروایا۔ اُس کے بعد حضرت سید تلطف حسین معینی صاحبؒنے فرمایا کہ آپ ہماری سفار ت مکمل ہو گئی۔ بابا حضورؒ کو تمام نعمت خواجہ غریب نوازؒ سے عطا ہوئی تھی اس لئے آپ صرف چشتیہ سلسلہ میں ہی بیعت لیتے ہیں۔
میں نے اپنی اس زندگی میں باباصاحب ؒ جیسی علمی شخصیت نہ دیکھی نہ سنی اور نہ پڑھی ہے۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ محافل میں اکثر مختلف لوگوں کو ہر موضوع پر سوال کرتے سنا گیا اور بابا صاحب نے ہمیشہ قرآن پاک سے اُس کا جواب مرحمت فرمایا۔ بابا صاحبؒ فرماتے تھے کہ قرآن پاک میں تمام جہانوں کا علم موجود ہے۔ اس لئے میں ہمیشہ قرآن پاک سے سوال کا جواب دیتا ہوں اور قرآن پاک کو کوئی شخص چیلنج نہیں کر سکتا ۔ بابا صاحبؒ کو قرآن حکیم کے علاوہ تمام مجموعات احادیث زبانی یاد تھیں اور اس کے علاوہ بابا حضور ؒ کو سعدی، مولانا جامی، حافظ شیرازی اور علامہ اقبال کے تمام مجموعات یہاں تک کہ دور جاہلیت کے شعراءمثلاً امراءالقیس کا کلام بھی زبانی یاد تھا۔سرکار بابا حضور ؒ کو عربی ، فارسی اور انگریزی پر عبور حاصل تھا۔ یعنی جس طرح روانی سے وہ یہ زبانیں بولتے تھے اُسی روانی سے لکھا بھی کرتے تھے۔ بابا حضور ؒ نے دینی علوم کو روزگار کا ذریعہ نہیں بننے دیا بلکہ ایک مترجم، صحافی اور براڈ کاسٹر کے طورپر کام کر کے اپنا روزگار کمایا۔ ریڈیوپاکستان، پاکستان ٹیلی ویژن اور اخبارات اس کے گواہ ہیں۔حضرت سیّد محمد وجیہ السیما عرفانی چشتی ؒنے اپنے کیرئیر کا آغاز 1943ء میں روزنامہ پر بھارت میں بطور ایڈیٹوریل سٹاف کے کیا۔ مجھے اس تاریخ کا علم نانک چند ناز ایڈیٹر انچیف روزنامہ پر بھارت لاہور کے ایک لیٹر سے ہوا جو کہ بابا حضور ؒکے ریکارڈ میں موجود ہے۔روزنامہ پر بھات میں بابا صاحبؒ نے تقریباً ایک سال ملازمت کی۔ آپ نے روزنامہ نوائے وقت، روزنامہ زمیندار، روزنامہ آفاق، روزنامہ پاکستان ٹائمز او رروزنامہ انصاف کراچی کے ساتھ ساتھ پاکستان کے تمام بڑے اخبارات کے لئے لکھا۔ایسی عظیم اور بے مثال ہستیاں یقینا صدیوں بعد پیدا ہوتی ہیں۔ جن کی سیرت اور افکار ایک مسلسل نور بن کر کائنات کو روشن رکھتے ہیں۔حضرت سیّد محمد وجیہ السیما عرفانی چشتی ؒ کا وصال 22فروری 1991ء بمطابق 6شعبات المعظم 1411ھ بروز جمعة المبارک ہوا۔آپ کا سالانہ عرس اور ختم شریف ہر سال 4تا 6شعبان المعظم لاہور کے قریب ایک قصبہ سندر شریف 32کلومیٹر ملتان روڈ لاہور میں زیر سرپرستی سجادہ نشین قطب الاقطاب، مجمع الاوصاف حضرت سیّد محمد حبیب عرفانی چشتی مدظلہ العالیٰ نہایت عقیدت و احترام سے منایا جاتاہے۔

(شکریہ روزنامہ نوائے وقت)

Related posts

Leave a Comment