رحیم احسن ۔۔۔ حضرت سید محمد وجیہ السیما عرفانی ؒ کی غزل گوئی

حضرت سید محمد وجیہ السیما عرفانی ؒ کی غزل گوئی

شاعری ہماری زندگی کے رویوں کی عکاس ہے اس سے معاشرے اوراس کے باسیوں کے شب و روز کے موزوں یا ناموزوں ہونے کا اندازہ بھی کیا جا سکتا ہے ۔ شاعری جہاں خوشی کی کیفیت سے دو چار کرتی ہے ۔ اس کے ساتھ وہ حزن و ملال بھی پید ا کرنے کا باعث ہے ۔ شاعری نے جہاں انسانی ذہن اور شعور کی بیداری میں اہم کردار ادا کیا ہے ۔ وہاں اس نے غزل کی شکل میں انسانی دلوں کی دھڑکن کو صفحۂ قرطاس پر حسین مرقع نگاری کی صورت میں نقش کر دیا ہے ۔ اس نقش کی صورت گزرتے ہوئے وقت کے ساتھ بہتر سے بہتر ہوتی چلی گئی ہے ۔ غزل کے لغوی معنی تو عورتوں سے گفتگو کرنا ہے یا شکار کے وقت ہرن کے منہ سے جو درد ناک چیخ نکلتی ہے اُسے بھی غزل ہی کا نام دیا جاتا ہے ۔ غزل محبت کے جذبات کے پیش ِ نظر سوزوغم ، ہجرو وصال ، نشاط و حزن کی کیفیات سے مزین ہوتی ہے ۔ آزاد نے امیر خسرو ؒ جب کہ بابائے اُردو مولوی عبدالحق کے خیال میں حضرت بابا فریدا لدین مسعود گنج شکر ؒ کے کلام میں غز ل کے ابتدائی نمونے موجود ہیں ۔ جدید اردو تحقیق کی روشنی میں اُردو غزل کی ابتداء دکن سے ہوتی ہے ۔ مشتاق دکنی اور قلی قطب شاہ کو ابتدائی اُردو غزل گو کے طور پر جانا جاتا ہے لیکن جس شاعر نے اُردو غزل کی صنف کو پذیرائی بخشی وہ ولی دکنی ہے جس کی غزل میں غزل کی جملہ فنی خوبیاں موجود ہیں ۔ غزل کے پانچ دور ہیں ۔ پہلے دور کے شعراء میں مشتاق دکنی ، قلی قطب شاہ ، ولی دکنی ، سراج اورنگ آبادی ، شاہ مبارک آبرو ، خان سراج الدین ، آرزو اور شاہ حاتم کے نام قابل ذکر ہیں ۔ دوسرے دور کے شعرا ء میں سودا ، میر خواجہ میر درد ، انشاء ، جرات ، مصحفی ، آتش اور ناسخ نمایاں مقام کے حامل ہیں ۔ تیسرے دور کے شعراء میں غالب ، مومن ، ذوق ، ظفر ، داغ ، ریاض خیر آبادی ،حسرت ، یگانہ ، فانی بدایونی ، اصغر گونڈوی ، جگر مراد آبادی اور امیر مینائی کے نام لیے جا سکتے ہیں ۔ چوتھے دور میں اقبال ، احسان دانش، قتیل شفائی ، فراق گورکھ پوری اور ظہیر کاشمیری جیسے شعراء کا ذکر کیا جا سکتا ہے ۔ پانچویں دور میں غزل نے ایک نیا روپ اختیار کیا ۔ جس میں ترقی پسند تحریک کے زیر اثر بھی غزل گوئی جاری رہی ، رومانوی غزل بھی تخلیق ہوتی رہی اس کے علاوہ نئے اور پرانے شعراء نے غزل میں نئی تشبیہات اور نئی علامات ایجاد کی ہیں ۔ فکر ، اسلوب ، الفاظ شناسی اور فنکارانہ مزاج کی بہت سی نئی مثالیں سامنے آتی ہیں ۔ اس دور کے شعراء میں فیض احمد فیض، احمد ندیم قاسمی ، منیر نیازی ، حبیب جالب ، احمد فراز ، شہرت بخاری ، وجیہ السیما عرفانی ، رضی ترمذی ، امجد اسلام امجد ، پروین شاکر اور شہزاد احمد شامل ہیں ۔ سید محمد وجیہ السیما عرفانی چشتی قدس اللہ سرہ العزیز کی غزل میں جس خوبی نے مجھے متاثر کیا ہے وہ غزل میں رجائیت پسندی کے عناصر ہیں ۔ رجائیت پُر امید ہونے کو کہتے ہیں ۔

؎ آنگن میں تمام روشنی ہے

آئے ہیں وُہ بام سے ، نہ در سے

اے رنگین بہارو ! دوڑو کلیاں پُھول ہوئی ہیں کھِل کے

آپ کی غز ل میں استفہامیہ انداز بھی ملتا ہے ۔ یہ انداز دراصل قاری کو دعوت ِ فکر دینے ، موضوع کے مختلف پہلوؤ ںکے ادراک اور معنویت کے لیے اختیار کیا جاتا ہے ۔

؎ بندوں سے ربط ہو نہ ،خداکے لیے خلوص

ایسے میں بہترین مسلماں کسے کہیں ؟

نہ آئینے ، نہ تصور ، نہ جستجو ، نہ خیال یہ کیا ہوا تھا کہ بس تجھ کو اپناجائے تھے آپ کی غزل میں خطابیہ و استدلالی انداز بھی دیکھنے کو ملتا ہے ۔ شمعیں گُل کر د و ، چراغاں تہ داماں کر دو اِک ذرا سجدہ ! کہ یار آیا ہے ایواں کے قریب ہرمشکلِ زندگی پہ ہنس لو! آنسونہ نکل پڑیں اُچھل کے آپ کی غزل میں لفظی تصویر کشی کے عناصر بھی پائے جاتے ہیں اور قاری اپنے آپ کو اُس منظر کے ناظر کے طور پر غزل کی کیفیت سے لطف اندوز ہوتا دکھائی دیتا ہے ۔ ؎ نظارہ اِک تبسمِ لعلیں کے کیف کا خیمہ کفِ جمال ہی کا تان کر لیا یہ میں ہوں ، کہ خورشید بدامانِ سحر ہوں یہ وہ ہیں کہ ہیں نور فشاں اول شب سے آپ کی غزل و ارادت ِ قلبی اور زندگی کی حقیقتوں کی عمدہ ترجمانی ہے ۔ یہ بات خلوص اور صداقت سے غزل کے مزاج کا حصہ بنتی ہے ۔ ؎ کل تک ادب کی شرط تھی، محفل کے آس پاس اور آج حال یہ ہے کہ خود یار آملا مجھے ملے بھی زمانے تو ہوگئے ہوں گے مگر وہ دل جسے کہتے ہیں بے قرار تو تھا غزل کی ایک خوبی ایجاز و ایمائیت ہوتی ہے جس میں اشاروں کنایوں میں محبوب کے رویوں کی نشان دہی کی جاتی ہے ۔ جسے سمجھانا ہوتا ہے وہ بات سمجھ جاتا ہے جب کہ باقی لوگ اس کی کڑیاں ملا کر معانی و مفاہیم کو سمجھنے کی تگ و دو میں مصروف رہتے ہیں ؎ غنچۂ شوق لگا ہے کھلنے پھر تجھے یاد کیا ہے دل نے آنسو تھے کہ آستیں پہ ڈھلکے اِک آہ تھی ، دب گئی چھل کے غزل کی مخصوص فضا میں محبوب ناز جب کہ عاشق نیاز کا پیکر ہوتا ہے ۔ جس کے تحت محبوب ایک طاقت ور اور عاشق ایک کمزور کردار کی صورت میں سامنے آتے ہیں ۔ آپ کی غزل میں نا ز اور نیاز کے دونوں عناصر موجود ہیں ۔ ان عناصر کا مرکز محبوب نہیں بلکہ عاشق دکھائی دیتا ہے ۔ ؎ ہم سے بھی بہت محنتیں سرزد ہوئیں اے دوست یہ ربط فقط تیرا ہی اعجاز نہیں تھا تم دور ہوتے ہوتے قریب آ گئے تھے دوست اور آئے تم ، تو ہم تھے کہ پہلو بدل گئے غزل میں ہجر و فراق کی، تلخی سنگ دل عاشق کو سوزو گداز کی کیفیت سے دوچار کرتی ہے تو وہ اپنی نفی کرنے کی منزل پر پہنچنے کے قابل ہوتا ہے ۔ آپ کی غزل میں سوزو گداز کے عناصر بھی ملتے ہیں ۔ ؎ عقدہ نہ کھلا ، کوئی محبت کی صدا سے اچھا ہے کہ واقف تو ہوئے رسمِ جفا سے آیا ہوں تیری گلی میں جب سے اِک کرب میں مبتلا ہوں تب سے غزل میں حُسن پرستی کا رجحان بھی پایا جاتا ہے ۔ بعض اوقات حسن پرستی کا یہ رجحان خواہش ِ نفسانی کا مرہون منت ہوتا ہے ۔ آپ کے ہاں حسن پرستی کا صحت مندانہ رجحان ملتا ہے جو اپنے قارئین کو حسن مطلق کی طرف متوجہ کرنے کا باعث ہے ۔ ؎ حسن دائم ہے ، محبت قائم آتے رہیے کہ ہے محفل جاری وہ پھول یوں نہیں ہے ، کہ خوشبو تمام ہے وہ شمع بھی نہیں ہے کہ کُل روشنی سا ہے حضرت سید محمد وجیہ السیما عرفانی چشتی قدس اللہ سرہ العزیز کی غزل کا مطالعہ کرتے ہوئے پتا چلتا ہے کہ وہ تمام عناصر جو کلاسیکی شعراء کے ہاں رائج تھے ۔ وہ سبھی آپ نے اپنے زمانے کے چلن ، تجربات و واردات اوراپنے تجزیے کے مخصوص اسلوب کی وجہ سے نہ صرف اچھوتے ، نئے اور اہم بنا دئیے ہیں بلکہ اُن کی بدولت آپ کو کلاسیکی شعراء کی فہرست میں شامل کیا جا سکتا ہے ۔ ؎ گفتگو یار سے ساری بے حرف عشق بھی رسمِ خدا ہو جیسے

Related posts

Leave a Comment