ڈاکٹر غافر شہزاد ۔۔۔ تصورِ احدیت

تصورِ احدیت

شعور کی منازل طے کرنے والے انسان کے سامنے آج بھی چند سوال کھڑے ہیں، میں کون ہوں؟ کہاں سے آیا ہوں؟ کہاں چلا جاؤں گا؟ یہ کائنات کیا ہے؟ کہاں سے وجود میں آئی؟ میرا اور کائنات کا خالق کون ہے؟ انسان، کائنات اور خالق(خدا) تینوں کا باہمی تعلق کس نوعیت کا ہے؟ یہ ایسے دقیق سوالات ہیں کہ صدیوں کی مغزماری، تحقیق اور سائنسی تجربات ابھی تک ان سوالات کے جوابات دینے سے قاصر ہیں۔ کائنات کے بارے میں انسا ن  نے جو سوچا کئی صدیوں تک اس بات پر متفق رہا کہ کائنات عناصر اربعہ (پانی، مٹی، آگ،ہوا) سے مل کر بنی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ انسانی آنکھ جن مظاہرِ فطرت کو دیکھ سکتی تھی ان کو پیش نظر رکھتے ہوئے اسی نتیجہ پر پہنچا جا سکتا تھا۔ مگر پھر بھی وضاحت نہیں ہو پاتی کہ آخر یہ چاروں عناصر کس طرح مل کر کائنات کو تشکیل دیتے ہیں۔مٹی بنیادی شے ہے جس سے انسان نے اول اول کچھ بنانا سیکھا، تجربہ نے اسے بتایا کہ اگر اس میں پانی ملا دیا جائے تو اسے گوندھ کر کوئی بھی شکل دی جا سکتی ہے۔ ہوا اور آگ اس مرکب کو سکھا کر بنائی جانے والی شے کوپختگی دیتے ہیں۔ اس ضمن میں ہاتھوں کا بہت بنیادی کردار رہا ہے۔انسان اور دیگر مخلوق الارض میں یہ فرق بھی ہے کہ انسان اپنی انگلیوں کو مختلف زاویوں سے گھما کر کسی بھی شے کو تشکیل دے سکتا ہے۔ یہ تحقیق بعد کی ہے کہ اس سارے عمل میں انگوٹھا بہت اہمیت رکھتا ہے۔ جس مخلوق میں انگوٹھا نہیں ہے وہ مجسمہ سازی کی صلاحیت سے محروم رہتی ہے۔ عناصر اربعہ کے باہم ملنے سے کسی ایک شے کے وجود میں آنے کے ابتدائی تصور نے انسان کے ذہن میں جنم لیا تو اس نے جزو  سے کل کی جانب اپنی سوچ کا سفر طے کیا۔ یہ سفر دراصل تخلیق کائنات سے تخلیق خدا کی طرف لے جاتا ہے۔ انسانی ذہن نے سوچا کہ جس طرح وہ خودچھوٹی چھوٹی اشیاء کا خالق ہے اسی طرح کوئی بڑا تخلیق کار بڑی شے یعنی اس کائنات کا خالق ہو سکتا ہے۔ پھر برستی ہوئی بارش، امڈتے ہوئے بادل، جلائی ہوئی آگ، بہاتا ہوا سیلاب، فصلیں پکاتا ہوا طلوع و غروب ہونے والا سورج، یہ تمام مظاہر فطرت متحرک تھے، ساکن نہیں تھے۔ تحرک کیلیے قوت چاہیے اور قوت کیلیے کوئی ہستی چاہیے جو ان کے عمل کو جاری رکھ سکے اور یہ متحرک کر دینے والی کوئی برتر و بالا قوت ہی ہو سکتی ہے۔ حضرت ابراہیم ؑ نے جب یہ دیکھا کہ سورج، چاند، ستارے سب غروب ہو جاتے ہیں۔ اجالا اندھیرے میں بدل جاتا ہے تو انھوں نے سوچا کہ میرا رب ایسا ہرگز نہیں ہو سکتا جو غروب ہو جاتا ہے۔ حضرت ابراہیم ؑ کی اس سوچ تک  انسانی فکر کو آتے آتے کئی صدیاں لگ گئیں مگر خدا کا تصور مستحکم ہوتا گیا۔سفر کی اس منزل تک آتے آتے کئی اور مذاہب کی کتابیں بھی ہماری رہنمائی کرتی ہیں۔ ان میں ایک کتاب بھگوت گیتا بھی ہے۔ بھگوت گیتا کا زمانہ حضرت عیسیٰ کے زمانے سے چار پانچ سو سال قبل کا ہے۔ حضرت ابراہیم ؑکی شخصیت کو یہودیت، عیسائیت اور اسلام تینوں مذاہب میں احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ یہودی ان کواوراہیم (Avrahim)بھی کہتے ہیں یا ’’Our Father Ibrahim‘‘ ۔آپ کا ذکر تورات میں بھی موجود ہے۔ عیسائی (رومن کیتھولک چرچ) ’’Our Father of faith‘‘ کہہ کر حضرت ابراہیم کو پکارتے ہیں۔ یہودیوں کا عقیدہ ہے کہ صرف پیدائش کے توسط سے ہی حضرت ابراہیم ؑکی نسل میں شامل  ہوا جا سکتا ہے۔ جبکہ عیسائیوں کے ہاں عقیدے کی بنیاد پر حضرت ابراہیم ؑ ؑکی نسل میں شامل ہوا جا سکتا ہے۔ اسلام میں نظریہ قدرے مختلف ہے۔ عقیدے یا پیدایش ہی سے حضرت ابراہیم ؑکی نسل میں شامل نہیں ہو سکتے بلکہ حضرت ابراہیم ؑ خدا کی طرف سے بھیجے گئے پیغمبروں کی لڑی میں سے ایک ہیں۔ قرآن میں ان کا تذکرہ” حنیف” یعنی ایک خدا کو ماننے والے کے طور پر ہوتا ہے۔ اقبال اپنی شاعری میں ملت ابراہیمی کی بات کرتا ہے۔ قرآن میں ابراہیم الخلیل یعنی’’ ابراہیم خدا کا دوست‘‘ کہا گیا ہے۔
بائبل کے مطابق حضرت ابراہیم ؑ کا زمانہ دو ہزار سال قبل مسیح خیال کیا جاتا ہے آپ کے والد کا نام آذر تھا جو بت تراش تھا۔ حضرت ابراہیم ؑنے ان بتوں کو خدا ماننے سے انکار کیا۔ حضرت ابراہیم ؑ نے پہلی مرتبہ توحید کا ذکر کیا، خدا کے احد اور واحد ہونے پر اصرار کیا۔ گویا یہ کثرت سے وحدت کی جانب کا سفر تھا۔ بھگوت گیتا میں بھی دنیا کے فانی ہونے کی با ت کی گئی ہے۔ خدا تک پہنچنے کے لیے جس طرح صوفی کہتا ہے کہ جتنے انسان اس کرہ ارض پر ہیں اتنے ہی راستے خدا کی طرف جاتے ہیں اسی طرح بھگوت گیتا میں بھی ذکر ہے کہ خدا کی ذات تک  پہنچنےکے لیے مختلف راستے ہیں اور ہمیں کسی دوسرے راستے کو برا نہیں کہنا چاہیے۔ اگلی بات بھگوت گیتا میں یہ ہے کہ خدا ہر شے میں چھپا ہوا بھی ہے اور ہر شے سے ظاہر بھی ہو رہا ہے۔ اکرم شیخ نے اپنی کتاب ’’نانک تے بلّھا‘‘ میں بھگوت گیتا کا بالتفصیل مطالعہ کرنے کے بعد یہ نتیجہ نکالا ہے کہ بھگوت گیتا میں پیش کردہ خیالات ’’وحدت الوجود‘‘ کی طرف لے جاتے ہیں۔ ان کے بقول ’’بھگوت گیتا میں درج ہے کہ سورج کی چمک میں میرا ہی نور ہے، چاند کی چاندنی میں بھی میں ہی ہوں، آگ کی روشنی اور گرمی بھی میرے باعث ہے، میں سنسار کی ہر شے کو سہارا دیتا ہوں اوریہ سنسار مرے دم سے قائم ہے اور میں نے ہی درختوں کو زندہ رکھا ہوا ہے، میں سب کے دلوں میں چھپا ہوا ہوں، پانی ، مٹی، آگ، ہوا۔۔۔آکاش، من، بدھی اور خودی۔۔۔ ان آٹھ اشیاء میں میں ہی نظر آتا ہوں‘‘
حضرت ابراہیم ؑ کا سفر کثرت سے وحدت کی طرف کا سفر تھا یہ زمانہ دو ہزار سال قبل مسیح کا ہے، بھگوت گیتا کا سفر وحدت سے کثرت کی طرف کا سفر ہے یہ چار پانچ سو سال قبل از مسیح کا زمانہ ہے پھر منصور حلاج اور ابن عربی کا عہد ایک ہزار سال بعد از مسیح، ابن عربی نے اس وحدت کو کائنات کی ہر شے میں شامل کر دیا اور کل کائنات میں ایک وحدت کا تصور فروغ دیا اور کہا کہ کائنات کی ہر شے میں خدا کا ظہور ہے، یہ اللہ تعالیٰ کی ذات کی مختلف صفات ہیں جن کا ظہور کائنات کی شکل میں ہوا۔ اگر اس بات کو مان لیا جائے کہ خدا نے ــ’’کن فیکون ‘‘کہا اور کائنات بن گئی، مگر مخاطب کون تھا؟ اس کا جواب صوفیاء نے دیا ہے کہ خدا کا مخاطب اس کی اپنی صفات ہی تھیں جن کو ’’کن‘‘ کہا گیا۔
اور اب اکیسویں صدی میں سٹیفن ہاکنگ کی دو کتابیں A Brief Histary of Time اور The Grand Design منظر عام پر آئی ہیں جن میں ماڈرن فزکس اور کوانٹم تھیوری کی مدد سے کائنات کے ہر لحظہ بدلتے ہوئے نظام کو کنٹرول کرنے والی قوت کے بارے میں بات کی گئی ہے کہ کائنات کا نظام یونہی نہیں چل رہا ہے اس کے پیچھے نظام کو چلانے والی کوئی ایک قوت ہے، جو کسی ضابطے کے تحت یہ سب نظام کائنات چلا رہی ہے۔ڈاکٹرعبدالسلام کو اسی تحقیق پر نوبل  انعام ملا تھا کہ انھوں نے فزکس کے اصولوں کے تحت یہ ثابت کر دیا تھا کہ نظام کائنات کو چلانے والی تین نہیں دو قوتیں ہیں، اس لیے کہ ان تین میں سے دو قوتیں دراصل ایک ہی ہیں۔ اب تمام تحقیق اس بات پر ہو رہی ہے کہ اصل قوت دراصل ایک ہی ہے۔ جس دن انسان نے اس احدیت کو دریافت کر لیا تو پھر اگلا سوال انسان کے سامنے کیا ہو گا ،یہ بذات خود ایک بڑا سوال ہے۔

Related posts

Leave a Comment