حفیظ الرحمٰن احسن ۔۔۔ رواں ہے چشمۂ آبِ بقا مدینے میں

رواں ہے چشمۂ آبِ بقا مدینے میں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دل و نظر کا ٹھکانہ ہوا مدینے میں
قرارِ روح جو رکھا گیا مدینے میں

ہر ایک ذرّہ چمک اُٹھا خاکِ یثرب کا
ہوا طلوع جو مہرِ حرا مدینے میں

ملا حرم میں جسے صادق و امیں کا لقب
بسا ہے آ کے وہی خوش ادا مدینے میں

فضا لطیف ہے مثلِ صفاے آئینہ
ہَواے خُلد ہے بادِ صبا مدینے میں

صدائیں آج بھی سنتا ہوں خیر مقدم کی
وہ آ گئے ہیں حبیبِ ؐ خدا مدینے میں

’’یہ کس بہشت شمائل کی آمد آمد ہے‘‘

اک ایک لب پہ ہے ’’صد مرحبا‘‘ مدینے میں

نظر نواز ہے ہر منظرِ دیارِ حبیبؐ
ہر آن لطفِ نظر ہے سَوا مدینے میں

نہیں ہے دہر میں اس شہر کی مثال کوئی

ہیں گرچہ ویسے ہی ارض و سما مدینے میں

شگفتِ گل کا وہ منظر کھلا کہ فصلِ بہار

ہے آپ اپنی ادا پر فدا مدینے میں

سُنے جو بلبلِ طیبہ کے زمزے تو لگا

طیورِ خُلد ہیں نغمہ سرا مدینے میں

بیاض صبح کا منظر جو دل کشا ہے تو ہے

سوادِ شام بھی بہجت فزا مدینے میں

جدھر نگاہ کریں، اک جہانِ دیگر ہے

ہیں اور رنگ کے صبح و مَسا مدینے میں

ہے عکسِ گنبدِ اخضر سے سبزپوش نظر

ہر ایک چیز ہے رنگیں قبا مدینے میں

عطاے ربِّ دو عالم کے شُکرِ واجب کو

اک ایک ذرّہ ہوا لب کشا مدینے میں

اُسی کے فیض سے روشن ہے کائناتِ وجود

بکھر رہی ہے اَنوکھی ضیا مدینے میں

نہیں ہے ظلمتِ فکر و نظر کوئی باقی

کہ ضو فشاں ہے چراغِ ہُدیٰ مدینے میں

نہیں ہے ڈر رہِ ہستی کے پیچ و خم کا کہ ہے

مرا امام، مرا رہنماؐ مدینے میں

کسی نے پوچھا، ’’جہاں میں ملے گا امن کہاں؟‘‘

تو فخر و ناز سے میں نے کہا، ’’مدینے میں!‘‘

مِلا ہے مدحت و حمد و ثنا میں جس سے فروغ

رقم ہوا ہے وہ حرفِ دعا مدینے میں

وہ خوش نہاد ہیں، حدِّ ادب میں رہتے ہیں

صبا مثال ہیں اہلِ نوا مدینے میں

یہاں سے لوٹا نہیں کوئی خالی ہاتھ کبھی

کھلا ہوا ہے وہ بابِ عطا مدینے میں

جو چاہتے ہو حیاتِ دوام، آؤ ادھر

رواں ہے چشمۂ آبِ بقا مدینے میں

اُتر رہی ہے مسلسل پھوار رحمت کی

اُٹھا ہوا ہے جو دستِ دعا مدینے میں

مقامِ خاص پہ فائز ہیں اہلِ علم یہاں

ہیں اور شان کے اہلِ صفا مدینے میں

شعور و فکر پہ در وا ہوا مدینے کا

تو پائی ذوقِ نظر نے جلا مدینے میں

ملی نجات غلامی سے ابنِ آدم کو

شرف نصاب ہوئے بے نوا مدینے میں

بنا کے رکھی گئی بے زباں جو صدیوں تک

مراد پا گئی اُس کی حیا مدینے میں

جو اہلِ حق تھے بہر رنگ سرفراز ہوئے

سَر اہلِ کفر کا نیچے ہوا مدینے میں

بنامِ کفر ہے پیغامِ غزوۂ خندق

کہ دیدنی تھی شکستِ اَنا مدینے میں

جلالِ حق نے بن و بیخ سے اکھاڑا انھیں

جو بن کے آئے تھے برقِ بلا مدنے میں

ابھی جو خُلق و عبادات میں تھا جلوہ نما

وہ دین آ کے ریاست بنا مدینے میں

منارِ رُشد و ہدایت رہے گا تا بہ ابد

نظامِ خیر جو قائم ہوا مدینے میں

خیال و خواب کی باتیں خیال و خواب ہوئیں

حقیقتوں کا وہ چرچا ہوا مدینے میں

ہبوطِ آدمِ خاکی تھا جس کا پہلا قدم

اُس ارتقا کی ہوئی انتہا مدینے میں

کبھی طلوع وہ روزِ سعید ہو مجھ پر

کہ اُڑ کے پہنچوں بہ فضلِ خدا مدینے میں

دیارِ دوست سے گو دُور ہوں پہ دُور نہیں

میں گو یہاں ہوں پہ ہے دل مرا مدینے میں

تو مجھ کو شہرِ محبت میں اجنبی نہ سمجھ

ہے ذرّہ ذرّہ مرا آشنا مدینے میں

نفس نفس مرا ہو جائے گا سرودِ سپاس

اگر ملا مجھے اذنِ نوا مدینے میں

جہاں کی نعمتیں سب مل گئیں اُسے احسن

جہاں کو چھوڑ کے جو آ گیا مدینے میں

Related posts

Leave a Comment