میر تقی میر

الٹی ہو گئیں سب تدبیریں کچھ نہ دوا نے کام کیا دیکھا اس بیماری دل نے آخر کام تمام کیا عہد جوانی رو رو کاٹا پیری میں لیں آنکھیں موند یعنی رات بہت تھے جاگے صبح ہوئی آرام کیا ناحق ہم مجبوروں پر یہ تہمت ہے مختاری کی چاہتے ہیں سو آپ کریں ہیں، ہم کو عبث بدنام کیا سارے رند اوباش جہاں کے تجھ سے سجود میں رہتے ہیں بانکے ٹیڑھے ترچھے تیکھے سب کا تجھ کو امام کیا سرزد ہم سے بے ادبی تو وحشت میں بھی کم…

Read More

تہِ سنگِ آسیہ ۔۔۔۔۔ ڈاکٹر توصیف تبسم

عجیب حیرت کدہ ہے دنیا! زمیں اندھیرے میں تیرتی ہے تو کون اس کو نشان دیتا ہے منزلوں کے! کوئی تو ہے جو چمکتے سورج کی روشنی کو سفید رنگت سے، سات رنگوں میں ڈھالتا ہے یہ پیڑ ہونے کا خواب بھی تو عطا ہے اس کی، جو بیج کی آنکھ مردہ مٹی میں دیکھتی ہے! اسی کی نادیدہ انگلیاں ہیں جو پیہم امکان کے ورق پر، نئی لکیریں بنا رہی ہیں! سروں پہ یہ گنبدِ زبرجد، بچھا ہوا، زیرپا، زمرد کا فرشِ مخمل! زمین اور آسماں کے ان سبز…

Read More

قاضی حبیب الرحمن

ہر آن پھیلتا جاتا ہے غم کا صحرا بھی بجھا سکا نہ مری پیاس ہفت دریا بھی عجب زمانوں کا درپیش ہے سفر کوئی کہ تھک کے بیٹھ گئی راہ میں تمنا بھی گزرتی جاتی ہے ہر سانس زندگی اپنی ٹھہر سکا کہیں دم بھر، ہوا کا جھونکا بھی ہزار بار، مری جاں! اسے غنیمت جان نگاہ بھر کو جو ہے فرصتِ تماشا بھی دوئی نہیں ہے محبت کے تجربے میں کوئی مری طلب ہے تری آنکھ سے ہویدا بھی اس اک امید پہ خود کو بھی تیاگ بیٹھے ہیں…

Read More

پاداش ۔۔۔۔۔ شکیب جلالی

کبھی اس سبک رو ندی کے کنارے گئے ہی نہیں ہو تمہیں کیا خبر ہے وہاں ان گنت کھردرے پتھروں کو سجل پانیوں نے ملائم رسلیے، مدھر گیت گا کر امٹ چکنی گولائیوں کو ادا سونپ دی ہے وہ پتھر نہیں تھا جسے تم نے بے ڈول، ان گھڑ سمجھ کر پرانی چٹانوں سے ٹکرا کے توڑا اب اس کے سلگتے تراشے اگر پاؤں میں چبھ گئے ہیںتو کیوں چیختے ہو؟

Read More

جعفر طاہر

کبھی آسماں، کبھی آستاں، کبھی بام و در پہ نظر کرو غمِ عشق تو غمِ عشق ہے، یونہی مر کے عمر بسر کرو یہ شبِ الم سپہ ستم حشم بلا یہ ہجومِ غم کبھی سوزِ دل سے بھی کام لو، کوئی دم تو رقصِ شرر کرو اُٹھو شب زدوں کو خبر کرو کہ نئی سحر کا سلام لیں وہ نئی سحر کا سلام لیں، اُٹھو شب زدوں کو خبر کرو زہے دستہ دستہ یہ داغِ دل ، زہے غنچہ غنچہ چراغِ دل ہے کھلا ہوا درِ باغِ دل کبھی اک…

Read More

درخت ۔۔۔۔ آفتاب اقبال شمیم

ابھی ابھی برف کی چڑیلیں ہری ہری مسکراہٹوں کو شگفتہ چہرے سے نوچ لیں گی ابھی ابھی باولے دنوں کی سیہ لٹکتی ہوئی زبانیں صرر صرر چاٹنے لگیں گی ترے بدن کو خزاں کا سفاک لکڑ ہارا ابھی ترا انگ انگ کاٹے گا، پھانسیاں سی تجھے بلندی سے پستیوں میں کڑک کڑک کھینچنے لگیں گی مگر معطر لہو برستا ہے جب فضا سے خنک خنک آگ جاگ اٹھتی ہے جب رگوں میں تو ایسے موسم میں تیرے زخموں سے پھوٹ آئیں گی عہدنامے کی آیتیں سی تو مسکرا کر محبتوں…

Read More

محبت اب نہیں ہو گی ….. منیر نیازی

ستا رے جو دمکتے ہیں  کسی کی چشمِ حیراں میں ملا قا تیں جو ہو تی ہیں  جمالِ ابر و باراں میں یہ نا آباد وقتوں میں  دلِ نا شا د میں ہو گی محبت اب نہیں ہو گی یہ کچھ دن بعد میں ہو گی گزر جا ئیں گے جب یہ دن یہ اُن کی یا د میں ہو گی

Read More