نعت رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم ۔۔۔ عقیل رحمانی

چاند ،سورج اور ستارے آپؐ ہی کے فیض سے سارے روشن استعارے آپؐ ہی کے فیض سے پُھول ، تتلی ، پیڑ ، پودے ، رونق ِ دنیا سبھی موسموں کے رنگ سارے آپؐ ہی کے فیض سے آسمانی سب کتابوں میں تری آمد کی بات سب صحیفے جو اُتارے آپؐ ہی کے فیض سے دو جہاں رب نے بنائے آپؐ ہی کے واسطے سارے منظر پیارے پیارے آپؐ ہی کے فیض سے تا قیامت دے دیا ہے سب کو زندہ معجزہ مل گئے قرآں کے پارے آپؐ ہی کے…

Read More

پروفیسر شوکت محمود شوکت۔۔۔۔پاک سر زمین شادباد (ایک نادر اور جامع دستاویز)

پاک سر زمین شادباد ۔۔۔ ایک نادر اور جامع دستاویز۔۔۔ یہ امر مسلمہ ہے کہ اپنے وطن،اپنے دیس،اپنی سر زمین اور اپنی مٹی سے عشق انسانی سرشت میں بدرجہ اتم پایا جاتا ہے۔ جس مٹی میں آباء و اجداد کی قبریں ہوں اس دھرتی کی محبت نہ تو وجوہ کی محتاج ہوتی ہے اور نہ ہی کسی قدغن کی سزاوار۔ جس طرح عقیدت و احترام ماں کے چہرے سے نہیں بل کہ اس کی سچی ممتا سے مشروط ہے بعینہٖ، لیلائے وطن اور دیس کی مٹی سے عشق و عقیدت…

Read More

توقیر عباس ۔۔۔ کوئی ہے ……!!

کوئی ہے ۔۔۔۔ !!۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کوئی ہے! کوئی ہے! کی صدائیں،لگاتے ہوئے،میں سراپا صدا بن گیا،لوگ آنکھوں کے گہرے گڑھوں سےمجھے گھورتے،ایک کیچڑ بھری لہر اُٹھتی شناسائی کی،میری جانب لپکتی،مگر ایک جھپکی میں معدوم پڑتیوہ پھر اپنی گدلی خموشی سمیٹے،کہاں، کس طرف آتے جاتے،خبر کچھ نہیں تھی، برسوں پہلے اسی شہر میں،بوڑھے پیڑوں تلے آگ روشن تھی اور،ایک خوشبو گواہی میں موجود تھی،وہ کہ عہدِ مقدس کی تقریب تھی،ساتھ دینے کا اک عہد تھا، اپنی چاہت کے اقرار میں،کہہ کے لبیکآواز سے دستخط کر دیےاور پھر ایک دناپنے اقرار کو بھول کرمیں…

Read More

مامون ایمن ۔۔۔ تعارفِ مامون ایمن بہ قلم خود (رباعیات)

تعارفِ مامون ایمن بہ قلم خود (رباعیات) خود دیس کی ہا و ہُو سے بچھڑا ہوں میں پردیس کی ہا و ہُو میں تنہا ہوں میں مامون نے ایمن سے کہا ہے ہر پَل ہر سانس پہ اک کرب کا چرچا ہوں میں ۔۔ یہ کرب، مری ذات کا سودا بھی ہے سودا ہے کہ شیشہ ہے، جو بکھرا بھی ہے آئینہ نے پوچھا ہے یہ ہنس کر اکثر ’’ تُو خود کو کسی حال میں سمجھا بھی ہے؟‘‘ ۔۔۔ مَیں خود کو سمجھ لیتا، تو اچھا ہوتا منزل کے…

Read More

علی اصغر عباس ۔۔۔ حصارِ مہر جو مسمار ہوتا جاتا ہے

حصارِ مہر جو مسمار ہوتا جاتا ہے دراز سایۂ دیوار ہوتا جاتا ہے یہ کس نے دُھوپ کنارے سے جھانک کر دیکھا افق بھی سرخیِ رخسار ہوتا جاتا ہے شکار گاہ میں ہانکا کرانے والا ہوں ہدف بھی میرا طلب گار ہوتا جاتا ہے شہابِ ثاقبِ دل ٹوٹ کر گرا جائے کمالِ دیدۂ مے خوار ہوتا جاتا ہے دیارِ ہجر میں پازیبِ غم چھنکتی سن شکیب درد کی جھنکار ہوتا جاتا ہے اشارہ پاتے ہی وہم و گماں، یقین ہوئے کشادہ جامۂ اسرار ہوتا جاتا ہے اے چوبِ خیمۂ جاں…

Read More

جلیل عالی ۔۔۔ کتنے محتاط ہو گئے ہیں ہم

کتنے محتاط ہو گئے ہیں ہم بے طرف بات ہو گئے ہیں ہم دل گرفتِ جہاں سے کیا نکلا قیدیٔ ذات ہو گئے ہیں ہم خود کو بھی اب دکھائی کیا دیں گے ظلم کی رات ہو گئے ہیں ہم دل بدر کر کے ولولے سارے گزر اوقات ہو گئے ہیں ہم دوش و فردا کا ہوش ہے کس کو نذرِِ حالات ہو گئے ہیں ہم جو بھی لمحہ قریب سے گزرا اس کے ہی ساتھ ہو گئے ہیں ہم اُس نے دیکھا ہے ٹوٹ کر عالی اور ذرّات ہو…

Read More