آفتاب خان ۔۔۔ نظیر اور کب ہے کہیں آسماں کی

نظیر اور کب ہے کہیں آسماں کی سیاحت کرو ، مرمریں آسماں کی وہاں نور پھیلا ہوا ہے خدا کا نشانی ہے یہ بہتریں آسماں کی زمیں تو مری اُنگلیوں پر کھڑی ہے میں حد دیکھ پایا نہیں آسماں کی تجھے ساتھ لے کر میں جاؤں وہاں تک جہاں تک ہے وسعت زمیں آسماں کی مری جیب میں ایک عرصے سے موجود ہے تصویر اک دل نشیں آسماں کی گھٹاؤں نے ہر سو دھواں سا بکھیرا ہے رُت دیدنی سُرمگیں آسماں کی وہاں اُس نے جاکر نہیں کچھ بتایا جو…

Read More

شہاب صفدر ۔۔۔ اِدھر علم اُدھر مال و زر دے رہا ہے

اِدھر علم اُدھر مال و زر دے رہا ہے سبھی کو سخی ظرف بھر دے رہا ہے سماعت سے انڈیل کر رس بیاں کا زبانوں کو نطق و اثر دے رہا ہے وہ کرکے چراغاں سرِ طور منظر اندھیرے میں رزقِ نظر دے رہا ہے کسی دم کے آرام کا کرکے ساماں کسی دم کو اذنِ سفر دے رہا ہے شہاب اِن زمینوں زمانوں میں اُڑتا غبار اک جری کی خبر دے رہا ہے

Read More

رضا اللہ حیدر ۔۔۔ تجھ سے تجھی کو مانگنا اک کام ہی تو ہے

تجھ سے تجھی کو مانگنا اک کام ہی تو ہے یہ درد میرے عشق کا انعام ہی تو ہے آکر شب ِ سیاہ اجالوں میں ڈھال دو اشکوں کا ہر چراغ لبِ بام ہی تو ہے جانا ہے ہم نے سرحدِ افلاک سے پرے یہ راہ، مُشتِ خاک کو اک گام ہی تو ہے خونِ جگر ہی پیتے ہیں زنجیر پا پڑے بادہ کشوں کا شہر میں اکرام ہی تو ہے بجھتی نہیں ہے پیاس مری روح کی وہاں لب پر خطیبِ شہر کے دشنام ہی تو ہے کرنوں کا…

Read More

رضا اللہ حیدر ۔۔۔ حرفِ نو آج جو دیوار پہ لکھا گیا ہے

حرفِ نو آج جو دیوار پہ لکھا گیا ہے وقت کی کاٹتی تلوار پہ لکھا گیا ہے روک پائے گا نہ یلغار اجالوں کی کوئی شاخِ مہتاب سے کہسار پہ لکھا گیا ہے سات دروازوں کے اندر جو کیا تھا چھپ کر جرم، پیشانیٔ اخبار پہ لکھا گیا ہے ایک الزام ہے جو خلقِ خدا کے لب سے پھر قبائے شہِ زردار پہ لکھا گیا ہے میں بھی اُس شوخ کو تشبیب میں لے آؤں گا جانتا ہوں کہ بہت پیار پہ لکھا گیا ہے یہ جو دفتر ہے رضا…

Read More

احمد جلیل ۔۔۔ آنکھوں کے دریچوں میں سجایا نہیں جاتا

آنکھوں کے دریچوں میں سجایا نہیں جاتا گِر جائے جو نظروں سے اُٹھایا نہیں جاتا اس دشتِ تمنا میں مَیں جلتا ہوں شب و روز جس سمت کبھی بھول کے سایا نہیں جاتا ہم صبح کے بھولے ہوئے وہ لوگ ہیں جن سے گھر شام کو بھی لوٹ کے آیا نہیں جاتا ہر دل نہیں ہوتا ہے محبت کا سزاوار ہر ساز پہ یہ راگ تو گایا نہیں جاتا اب اس کو بھلانے کا ارادہ تو ہے لیکن دریا کبھی الٹا بھی بہایا نہیں جاتا سوچا ہے کئی بار نہ…

Read More

احمد جلیل ۔۔۔ نکل کے دل سے بدن کی حدود میں بکھرا

نکل کے دل سے بدن کی حدود میں بکھرا یہ کیسا درد ہے میرے وجود میں بکھرا لہو لہو تھا وہ مقتل کی حد پھلانگ گیا مگر میں مر کے بھی تیری حدود میں بکھرا گنوا دیا تھا بہت کچھ انا بچاتے ہوئے جو بچ گیا تھا وہ نام و نمود میں بکھرا جو ایک کھیل سمجھتا تھا عشق کو پہلے پھر اس کے بعد اُسی کھیل کود میں بکھرا یہ حسنِ ماہ و کواکب یہ رنگِ قوس قزح تمھارا حسن ہے چرخِ کبود میں بکھرا بڑی انیس تھی گمنامیوں…

Read More

صغیر احمد صغیر ۔۔۔ زمانے کا یہ رویہ سمجھ نہیں آیا

زمانے کا یہ رویہ سمجھ نہیں آیا کسی کو جیسا ہوں ویسا سمجھ نہیں آیا میں کیسے مان لوں منصف کی منصفی کہ اسے پھٹا ہُوا مرا کرتہ سمجھ نہیں آیا تغیر ایک حقیقت سہی مگر تیرا یہ اتنا جلدی بدلنا سمجھ نہیں آیا وہ دیکھ سکتا ہے: میرا یقیں غلط نکلا اسے خموشی کا لہجہ سمجھ نہیں آیا خدا کی مانی نہیں، اُس کے ماننے والو! مجھے تمہارا عقیدہ سمجھ نہیں آیا سمجھ سکا ہے اگر کوئی تو بتائے مجھے صغیر ہونا نہ ہونا سمجھ نہیں آیا

Read More

امتیاز انجم ۔۔۔ زباں بدلنے لگے یا بیاں بدلنے لگے

زباں بدلنے لگے یا بیاں بدلنے لگے بدلنے والے کو ٹوکو! جہاں بدلنے لگے سنبھال سکتے نہیں گھر، جہاں سنبھالتے ہیں زمیں بدل نہیں پائے ، زماں بدلنے لگے میں دیکھتا رہا دنیا سیاہ ہوتی گئی میں دیکھتا رہا آتِش رخاں بدلنے لگے ہم ایسے لوگ جو قرضہ چکا نہیں سکتے ادھار بڑھنے لگا تو دکاں بدلنے لگے تمام رات بلاؤں کا رقص تھا انجم مکین خوف کے مارے مکاں بدلنے لگے

Read More