دل میں بھرا زبسکہ خیالِ شراب تھا
مانند آئنے کے مرے گھر میں آب تھا
موجیں کرے ہے بحرِ جہاں میں ابھی تو تُو
جانےگا بعدِ مرگ کہ عالم حباب تھا
اُگتے تھے دستِ بلبل و دامانِ گل بہم
صحنِ چمن نمونۂ یوم الحساب تھا
ٹک دیکھ آنکھیں کھول کے اُس دم کی حسرتیں
جس دم یہ سوجھے گی کہ یہ عالم بھی خواب تھا
دل جو نہ تھا تو رات زخود رفتگی میں میرؔ
گہ انتظار و گاہ مجھے اضطراب تھا
Related posts
-
صوفی تبسم ۔۔۔ ہر ذرہ اُبھر کے کہہ رہا ہے
ہر ذرہ اُبھر کے کہہ رہا ہے آ دیکھ، ادھر یہاں خدا ہے اِس چرخ کو... -
استاد قمر جلالوی ۔۔۔ کسی کو دل مجھے دینا تو ناگوار نہیں
کسی کو دل مجھے دینا تو ناگوار نہیں مگر حضور زمانے کا اعتبار نہیں وہ آئیں... -
استاد قمر جلالوی ۔۔۔ کریں گے شکوۂ جورو جفا دل کھول کر اپنا
کریں گے شکوۂ جورو جفا دل کھول کر اپنا کہ یہ میدانِ محشر ہے نہ گھر...