مفت آبروئے زاہدِ علامہ لے گیا اک مغ بچہ اُتار کے عمّامہ لے گیا داغِ فراق و حسرتِ وصل آرزوئے عشق میں ساتھ زیرِ خاک بھی ہنگامہ لے گیا پہنچا نہ پہنچا آہ گیا سو گیا غریب وہ مرغِ نامہ بر جو مرا نامہ لے گیا اُس راہزن کے ڈھنگوں سے دیوے خدا پناہ اک مرتبہ جو میرؔ جی کا جامہ لے گیا
Related posts
-
حفیظ جونپوری ۔۔۔ زمانے کا بھروسا کیا ابھی کچھ ہے ابھی کچھ ہے
زمانے کا بھروسا کیا ابھی کچھ ہے ابھی کچھ ہے یہی ہے رنگ دنیا کا، ابھی... -
میر تقی میر ۔۔۔ اپنے ہوتے تو با عتاب رہا
اپنے ہوتے تو با عتاب رہا بے دماغی سے با خطاب رہا ہو کے بے پردہ... -
مرزا غالب ۔۔۔ نقش فریادی ہے کس کی شوخیِٔ تحریر کا
نقش فریادی ہے کس کی شوخیِٔ تحریر کا کاغذی ہے پیرہن ہر پیکرِ تصویر کا شوخیِ...