رحمان حفیظ

لفظ سے ما ورا سوال بھی ہیں کینوس سے بڑے خیال بھی ہیں ان یگوں سے پرے، گماں سے ورا بیکراں روز و ماہ و سال بھی ہیں مری آنکھوں کو سرسری مت دیکھ ان میں کچھ رنگ لازوال بھی ہیں دعوی عشق ہی نہیں کرتے دیکھ ہم صبر کی مثال بھی ہیں بے نیازانہ کس طرح گزروں پھول ہیں اور پائمال بھی ہیں دینے والے سے اور کیا مانگوں شعر ہیں اور حسبِ حال بھی ہیں

Read More

رحمان حفیظ

مدتوں میں بہَم ہوئے ماضی و حال دیر تک ذہن میں پَر فشاں رہی ، گردِ ملال دیر تک رہ نہیں پائے گی یہی صورتِ حال دیر تک کس کا کمال دیر تک ! کس کا زوال دیر تک ! تیغ بکف سوار تو گرد اُڑا کے چل دیے کانپتا رہ گیا وہاں ایک نہال دیر تک اس کا جواب بھی وہی ، ایک طویل خامشی دہر میں گونجتا رہا میرا سوال دیر تک آنکھ وہیں ٹھہر گئی ، دل میں سکوت ہو گیا اور پھر آ نہیں سکا اپنا…

Read More

رحمان حفیظ

تکبر سے کمر کوزہ ہوئی ہے آسماں کی زمیں کو خاکساری نے جواں رکھا ہوا ہے

Read More