رحمان حفیظ

مدتوں میں بہَم ہوئے ماضی و حال دیر تک ذہن میں پَر فشاں رہی ، گردِ ملال دیر تک رہ نہیں پائے گی یہی صورتِ حال دیر تک کس کا کمال دیر تک ! کس کا زوال دیر تک ! تیغ بکف سوار تو گرد اُڑا کے چل دیے کانپتا رہ گیا وہاں ایک نہال دیر تک اس کا جواب بھی وہی ، ایک طویل خامشی دہر میں گونجتا رہا میرا سوال دیر تک آنکھ وہیں ٹھہر گئی ، دل میں سکوت ہو گیا اور پھر آ نہیں سکا اپنا…

Read More