رحمان حفیظ

مدتوں میں بہَم ہوئے ماضی و حال دیر تک
ذہن میں پَر فشاں رہی ، گردِ ملال دیر تک

رہ نہیں پائے گی یہی صورتِ حال دیر تک
کس کا کمال دیر تک ! کس کا زوال دیر تک !

تیغ بکف سوار تو گرد اُڑا کے چل دیے
کانپتا رہ گیا وہاں ایک نہال دیر تک

اس کا جواب بھی وہی ، ایک طویل خامشی
دہر میں گونجتا رہا میرا سوال دیر تک

آنکھ وہیں ٹھہر گئی ، دل میں سکوت ہو گیا
اور پھر آ نہیں سکا اپنا خیال دیر تک

ساعتِ نو! صدا نہ دے ، لذّتِ درد! کچھ ٹھہرَ
دل میں یونہی چبھی رہے نوکِ ہلال دیر تک

ایک امینِ درد سے آج عجب غزل سنی
تَن سے مرے کٹا رہا دستِ کمال دیر تک

Related posts

Leave a Comment