سعید سادھو … میں کیونکر نظم کہتا ہوں

"میں کیونکر نظم کہتا ہوں”

غزل پابند کرتی ہے
مجھے بس نظم ہی آزاد رکھتی ہے
کسی پیچیدہ جُوڑے میں
اُڑس لینا گُلابوں کا مجھے اچھا تو لگتا ہے
کھُلے بالوں کا لہرانا
مکمل نظم جیسا ہے
۔۔۔

میں چڑیا گھر میں سارے جانور تو دیکھ لیتا ہوں
مگر جنگل کی ۔۔۔۔ سائَیں سائَیں ۔۔۔۔۔ سائِیں اور ہوتی ہے
۔۔۔

اے شالا مار کی ترتیب۔۔۔!!!!!
تجھ میں بیٹھتا ہوں تو
مجھے ناران بے ترتیب کیونکر ہانٹ کرتا ہے

کہ بے ترتیب چیزوں میں بھی آخر کوئی تو ترتیب  ہوتی ہے

میں بے ترتیب چیزوں میں سے اپنے کام کی ترتیب چنتا  ہوں
اور اس کو نظم کرتا ہوں
میں ایسے نظم کہتا ہوں

Related posts

Leave a Comment