بانی ۔۔۔۔ وہاں سے اب کوئی آئے گا لوٹ کر بھی کیا!

وہاں سے اب کوئی آئے گا لوٹ کر بھی کیا!
حریف کیا، مرے یارانِ معتبر بھی کیا!
نہ اب ہے آب میں موتی نہ خاک میں سونا
مری طرح ہوئے خالی یہ بحر و بر بھی کیا؟
نہیں رہے گا یہ ہنگامہ کچھ قدم تک بھی
پھر اُس کے بعد مرے ساتھ ہم سفر بھی کیا!
خبر اُڑانے سے موقعے پہ چوکتا بھی نہیں
ہمارا دوست ہے لیکن ہے بے ضرر بھی کیا!
وہ فاصلے تھے کہ دونوں کو راس آتے گئے
کسی کو دوسرے کی پھر کوئی خبر بھی کیا!
ہمارے دل میں ہے کیا؟ سن تو کچھ تسلّی سے
کہ ٹوکنا یہ ترا بات بات پر بھی کیا!
کسی چٹان کے اندر اتر گیا ہوں میں
کہ اب مرے لیے طوفاں بھی کیا، بھنور بھی کیا
عجب مثال ہے غم کی یہ قصّہ پڑھیے اسے
کہیں کہیں سے بھی کیا، اور تمام تر بھی کیا!
چلو کہ چین سے بیٹھیں کہیں تو اے یارو!
نہیں ہے شہر سے باہر کوئی کھنڈر بھی کیا!
یہی کہ کالی سے لفظوں کو معنی دیتے پھریں 
ہمارے پاس ہے اس کے سوا ہنر بھی کیا!

Related posts

Leave a Comment