پر کشا طائرِ آفات وہی ہیں کہ جو تھے
خاک پر رینگتے حشرات وہی ہیں کہ جو تھے
نظم تکمیل کے باوصف وہی ہے کہ جو تھی
سطر در سطر زحافات وہی ہیں کہ جو تھے
ابر اٹھتا ہے مگر کھل کے برستا ہی نہیں
شہر پر دشت کے اثرات وہی ہیں کہ جو تھے
آج بھی لوٹ گیا در سے تہی دست فقیر
کیا کیا جائے کہ حالات وہی ہیں کہ جو تھے
آج تک ایک بھی کوزہ نہ بنا مجھ سے نجیب
کیا کروں میں کہ مرے ہاتھ وہی ہیں کہ جو تھے