مرے یارو!…… حامد یزدانی

یونہی ہم گنگناتے ہیں
گھنی شب میں
سلیٹی آسماں، گاچی لگے بادل
گریزاں وقت کی توجیح کرتے گم شدہ لمحے
سمٹتی سردیوںکے استعارے
نارسائی کے، اداسی کے اشارے
رفتہ موسم کا ’فنون‘ اور
لکشمی، دی مال،لارنس، پاک ٹی ہائوس
ہر سُو،
خالدؔ احمد کی غزل پربحث جاری ہے

صحافی شب زدہ خبروں کو عریاں کرتے جاتے ہیں
سپاہی اک نیا پیغام لاتے ہیں
یہ خالی حرف ہیں؟ وحشت ہے؟ یا کیا ہے؟
(۱)
بڑے دکھ سے وہ کہتا ہے:
یہ کوئی آسمانی حکم بھی شاید نہیں ہے!
پیڑ سے لڑتی ہوائیں گھورتی ہیں
چہرا چہرا چال تاروں کی
کہیں مہدی حسن کے سُرپگھلتے ہیں
کسی فٹ پاتھ پر
پیلے اُجالے سے لپٹتے کچھ پتنگے
قافیہ پیمائی کرتے ہیں
وہ دن بھر کا تھکا رکشہ ابھی تک بڑبڑاتا ہے

دھواں!
مصرعے
کہ لوری؟
پھر وہی بوسیدہ چَیٹنگ
پھر وہی فرضی سے دوست۔۔۔
دُور کھمبے سے لپکتی۔۔۔
شاید اردو میں لکھی اک ملگجی تختی
سموکنگ۔۔۔ ؟ نو سموکنگ !
(۲)
واپڈا کے تار سے الجھی پتنگیں
رات جیسی گدلی چائے کی ہُمکتی بھاپ ہے
یاقوُ کے ہوٹل میں
لہکتے میز سے چپکے
گِھسے اخبار کو تکتی
کھنکتی پیالیوں کی اوٹ سے
ساٹن کی نیلی تتلیوں کو کھوجنے
سورج بھی نکلے گا!
مِرے یارو!
ذرا ٹھہرو، ذرا ٹھہرو،
چلو اک بار پھر، روٹھے دنوں کو گدگداتے ہیں
یونہی ہم گنگناتے ہیں
گھنی شب میں۔۔۔ !

Related posts

Leave a Comment