میں رات کے درد کا صلہ تھا
میں صبح کے خواب کا گِلہ ہوں
میں اپنے ہی رنگ میں کھلا تھا
میں اپنے ہی رنگ میں جھڑا ہوں
میں اپنی ہی خاک پر کھڑا تھا
میں اپنی ہی راکھ پر پڑا ہوں
Related posts
-
اکرم سحر فارانی ۔۔۔ چھ ستمبر
ظُلمت کے جزیرے سے اَندھیروں کے رسالے آئے تھے دبے پاؤں اِرادوں کو سنبھالے دُشمن کے... -
حامد یزدانی ۔۔۔ سوالیہ اندیشے
سوالیہ اندیشے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس خزاں کی نئی اداسی کا رنگ کتنے برس پرانا ہے؟ زندگی مسکرا... -
خاور اعجاز ۔۔۔ امکان (نثری نظم) ۔۔۔ ماہنامہ بیاض اکتوبر ۲۰۲۳)
امکان ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رات کو پیدا ہونے والی تاریکی روشنی کا مطالبہ کرتے ہُوئے گھبرا جاتی ہے...
بہت عمدہ.. کیا کہنے