اعجاز گل کی شخصیت: ایک تاثر
…………………………………………
’’بھائی! تم کس کی طرف ہو؟ ‘‘ اعجاز گل صاحب نے پوچھا۔
ہم نے جواب میں عرض کیا: ’’دونوں طرف!‘‘
رات کے دو بج چکے تھے۔فیس بک پر جنابِ ظفر اقبال اور جنابِ اختر عثمان کی شاعری کے حوالے سے ہم کچھ دوستوں سے الجھ رہے تھے۔ دونوں طرف سے آرا سامنے آ رہی تھیں۔ ہم اکیلے تھے، دوسری طرف تین صاحب مقابلے میں ڈٹے ہوئے تھے۔ہوا کچھ یوں کہ حلقہ اربابِ ذوق، لاہور نے ظفر اقبال صاحب کے ساتھ ایک شام منائی۔ برادرم اختر عثمان بھی اتفاقاً لاہور آئے ہوئے تھے۔ ہم سب حلقہ پہنچے، برادرم اختر عثمان نے دورانِ گفتگو کچھ چبھتی ہوئی باتیں کہہ دیں۔ ایک آدھ نوجوان بھڑک اٹھا۔ ظفر صاحب حسبِ معمول صورتِ حال سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔ یہاں یہ بتا دینا مناسب ہو گا کہ تنقید برداشت کرنے کا جتنا حوصلہ ظفر اقبال صاحب میں ہے،اس دور میں شاید ہی کسی میں ہو۔ رات گئے کچھ احباب نے اس مجلس میں ہونے والی گفتگو کو قطعی غلط رنگ میں فیس بک پر درج کر دیا۔ ہم نے اپنا فرض جانتے ہوئے درستی کی کوشش کی اور واضح کیا کہ ہم بھی وہیں موجود تھے، لیکن سنی سنائی پر یقین کرنے والے ہماری بات ماننے کو تیار نہ تھے۔ بات بڑھتی بڑھتی یہاں تک جا پہنچی کہ ہمیں چیلنج کر دیا گیا کہ اگر آپ اختر عثمان کو اچھا شاعر جانتے ہیں تو ثبوت کے لیے کچھ اشعار پیش کریں۔ ہم نے برادرم اختر عثمان کے بے شمار عمدہ درجے کے اشعار درج کر دیے۔ پھر ہم نے اپنے دور دیس بسنے والے دوستوں سے کہا کہ اب آپ ظفر صاحب کے اشعار پیش کریں۔ وہ تینوں مل کر ظفر صاحب کے دس سے زیادہ اشعار پیش نہ کر پائے وہ بھی آج سے کم و بیش بیس پچیس برس قبل کے اشعار۔ جب ان کی ہمت اور یادداشت جواب دے گئی تو ہم نے کہا: دوستو! اب ہم آپ کی خدمت میں ظفر صاحب کے خوب صورت اشعار پیش کرنے کی جسارت کریں گے۔ہم نے ظفر صاحب کے اشعار درج کرنے شروع کیے تو ذہن میں ایک سے ایک شعر آتا چلا گیا، یوں ہم نے اُن کے ماضی قریب اور حال کے بیسیوں خوب صورت اور لاجواب اشعار درج کردیے۔ وہ لوگ یہ سمجھ رہے تھے کہ ہم ظفر صاحب کی مخالفت پر تلے بیٹھے ہیں لیکن قصہ پلٹتے دیکھ کر چپ ہو گئے۔ ظفر صاحب سے ہمیں بہت محبت ہے۔ اختر عثمان بھی ہمیں بہت عزیز ہیں۔ اس ساری گفتگو کے دوران ایک صاحب اعجاز گل دونوں طرف سے آنے والی آرا اور اشعار پر مسلسل اپنی پسندیدگی کا اظہار فرماتے جا رہے تھے۔ تھوڑی تھوڑی نام سے تو آشنائی تھی لیکن جان پہچان کی کوئی صورت نہ تھی۔ سو ہم نے دھیان نہیں دیا۔ پھرجب یہ سلسلہ رکا تو ہمیں فیس بک پر ایک پیغام ملا: بھائی! اپنا فون نمبر بھیجو۔ ہم نے نمبر لکھ دیا۔ فوراً امریکہ سے کال آ گئی: اعجاز گل بول رہا ہوں، تم سب سے پہلے یہ بتاؤ کہ تم ہو کس کی طرف؟ ظفر اقبال کی طرف کہ اختر عثمان کی طرف؟ تھوڑا تھوڑا یاد پڑتا ہے کہ پہلی فون کال کم و بیش دو گھنٹے کی تو رہی ہو گی۔ہم نے کہا: صاحب! ہم دونوں کی طرف ہیں۔ ایک ہمارے بزرگ ہیں اور ایک بھائی۔ بس پھر کیا تھا، ایک سلسلہ تھا کہ چل نکلا۔اکثر اعجاز گل صاحب کا فون آنے لگا۔ ایک دن ہم نے خالد احمد صاحب اور دیگر احباب کی کچھ تصاویر فیس بک پر لگائیں تو اعجاز گل صاحب نے اپنی رائے یوں دی: کمال ہے، آج تو خالد نے بالوں میں کنگھی بھی کر رکھی ہے۔ ہم حیران ہوئے۔ اگلے دن خالد صاحب سے کہا کہ اعجاز گل نامی ایک صاحب نے آپ کی تصویر پر یوں رائے زنی کی ہے۔ خالد صاحب نے ایک قہقہہ لگایا، کہنے لگے، وہ ہمارا نوجوانی کا دوست ہے۔ اعجاز صاحب سے مراسم مزید استوار ہوتے نظر آئے۔ اعجاز صاحب نے اپنے شعری مجموعہ کی اشاعت کا منصوبہ بنایا۔ معلوم ہوا کہ اس کتاب کا دیباچہ خالد احمد صاحب تحریر فرما رہے ہیں۔ خالد صاحب ان دنوں بیمارتھے۔ بڑھتے بڑھتے بیماری اپنی حدوں کو چھو گئی۔ اور پھر ایک روز خالد صاحب اس جہانِ فانی سے کوچ کر گئے۔ اللہ تعالیٰ انھیں اپنے جوارِ رحمت میں جگہ عطا فرمائے۔اعجاز گل صاحب کا فون آیا۔ خالد صاحب کی وفات پر بہت اداس تھے۔اعجاز گل صاحب سے گفتگو کا سلسلہ چلتا رہا۔ پھر ایک دن اعجاز صاحب نے حکم صادر فرما دیا کہ ہم ان کی کتاب کا دیباچہ لکھیں گے۔ اپنے سے اتنے سینئر شاعر پر لکھنا گویا پل صراط پر چلنے کے مترادف تھا۔ہم اپنے آپ کو اس لائق بھی نہیں گردانتے تھے۔ بہت ٹالا لیکن نہیں مانے۔پھر یوں ہوا کہ ہمیں یہ دیباچہ لکھنا پڑا۔ لیکن اعجاز صاحب کی ایک ہی بات تھی کہ بھائی جو لکھنا چاہتے ہو، لکھو۔ اس بہانے اعجاز صاحب کی شاعری سے تفصیلی تعارف کا موقع ملا۔ موصوف جتنی عمدہ گفتگو کرتے ہیں، اس کا اندازہ آپ اس بات سے لگا لیں کہ گھنٹوں ان سے گفتگو رہتی ہے، کبھی وقت گزرنے کا احساس ہی نہیں ہو پایا۔سیاسی، سماجی، معاشی اور ادبی معاملات پر کھل کھلا کر گفتگو فرماتے ہیں۔ہر معاملے میں اُن کا اپنا ایک نقطۂ نظر ہے۔لیکن کمال یہ ہے کو دوسروں سے اتفاق کرنا بخوبی جانتے ہیں۔تاہم اس کے لیے مدِ مقابل کو دلیل کے ساتھ بات کرنا پڑتی ہے۔ورنہ چاروں شانے چت۔ ہماری اعجاز صاحب سے بالمشافہ ملاقات نہیں لیکن فیس بک اور فون پر ہونے والی متعدد بار کی گفتگو کے بعد ایسا لگتا ہے کہ ہم انھیں زمانے سے جانتے ہیں۔
(اعجاز گل کی زندگی میں لکھے گئے کالم سے انتخاب)