طارق بٹ

قید کیا تھی، کسے رہائی ہوئی
کھوئی دل نے، مراد پائی ہوئی

خود کو رکھا گرو نہ جاں ہارے
اب کے بازار میں صفائی ہوئی

اک ضرورت سے تجھ کو یاد کیا
وضع اپنی بھی روستائی ہوئی

کام آئی ہے دشمنوں کی طرح
کوئی پہچان، آزمائی ہوئی

کیسے بے سمتگی کے عالم میں
تجھ اندھیرے سے روشنائی ہوئی

جل بجھا ہوں ستارہ سا لیکن
روشنی ہے مری کمائی ہوئی

آج بھی دیکھتا ہوں حیرت سے
رُت جو آئے سجی سجائی ہوئی


کسرِ شاں ہم سے گر گدائی ہوئی
آپ سے بھی نہ میرزائی ہوئی

چھوڑ جائیں گے ہم بہانہ کوئی
تیرے در تک نہ گر رسائی ہوئی

یاد کرتے ہیں، بھولنے والے
اچھا، اچھا چلو، صفائی ہوئی

ہم تری راہ پر چلے ہی کہاں
گمرہی میں ہے راہ پائی ہوئی

یوں تو کھو دے گی زندگی خود کو
یہ جو پھرتی ہے بوکھلائی ہوئی


دل کی رفتار زلزلائی ہوئی
اپنے قدموں پہ ڈگمگائی ہوئی

درد نے طرز ہے بنائی ہوئی
یہی بندش ہے دل کو بھائی ہوئی

سوز خوانی نہ سنیو سینے کی
آنکھ مت دیکھ ڈبڈبائی ہوئی

لمحہ لمحہ ، کریدتا گزرا
آہ : دیوار جاں یہ ڈھائی ہوئی

لاؤ اب ساخت کوئی دل کی نئی
بے دھڑک سی نپی نپائی ہوئی

Related posts

Leave a Comment