اکرم کنجاہی…  روایت کی دریافتِ نو کا شاعر (کاشف حسین غائر)

 روایت کی دریافتِ نو کا شاعر (کاشف حسین غائر)

کاشف حسین غائر ہمارے کراچی کے ان چند تازہ دم شعرا میں سے ہیں جن کے ہاں تھکاوٹ کا احساس نہیں۔ وہ بڑے سلیقے سے غزل کہہ رہاہے۔اُس نے غزل کو غزل سمجھ کر کہا ہے، اُس کی کوملتا پر حرف نہیں آنے دیا۔ اُس کے ہاں غزل اپنے پورے حسن، نزاکت اور لطافت کے ساتھ جلوہ ریز ہے۔ میں اِسے خالص غزل کا نام دوں گا کہ کاشف حسین غائر نے غزل میں زیادہ موضوعاتی تجربات کرنے کی بجائے اس کے روایتی راستوں میں وسعت اور فراخی پیدا کی ہے۔ ایسے شعرا ہمارے ہاں کم یاب ہیں۔اس لیے کہ کچھ فرسودہ روایات سے دامن چھڑا نہیں پائے اور کچھ نے جدیدیت کے نام پر غزل کو نا کام تجربہ گاہ بنا کے رکھ دیا ہے۔ اس کی کوملتا کو کھردرے پن میں بدل دیا ہے۔ ایسے میں ” کہاں جائے گی تنہائی ہماری ” جیسے شعری مجموعے اچھا شعری ذوق رکھنے والوں کے لیے نعمت سے کم نہیں۔یہ حقیقت ہے کہ وہ تخلیق کار ہی فن پارے کو ثروت مند بنا سکتا ہے جس کے ہاں فن کی دریافتِ نو کا عمل بھر پور انداز میں دکھائی دیتا ہے۔ اس لیے کہ روایت نے تشبیہات ، استعارات اور مخصوص لفظیات تو عطا کی ہیں مگر کثرت استعمال سے پائمالی اور فرسودگی نے تازہ کاری کو راستہ نہیں بنانے دیا۔اس لیے اچھے شعر گویوں نے روایت کی دریافت نو کا عمل اپنے تخلیقی مزاج کا حصہ بنا یا ہے۔کاشف بھی جدید شعرا کی صف میں اپنا مقام بنانے کی کامیاب تگ و دو کر رہا ہے۔اپنے پیش روؤں ناصر کاظمی، شکیب جلالی اور احمد مشتاق کی طرح اُردو غزل کو متمول کر رہا ہے۔شاید اُس نے اپنے ہی بارے میں کہا ہو

یہ سبھی رنگ ہیں میرے، مرے ہونے کی دلیل
اِن ہی رنگوں میں مر ا نام و نشاں  ملتا ہے
مرے ہُنر  سے بہت کینوس پریشاں ہے
میں جو بھی آنکھ بناتا ہوں نم بناتا ہوں

غزل اس قدر زیادہ کہی جا رہی ہے کہ اس انبار میں راستہ بنانا چنداں آسان نہیں۔کاشف کو مشاعرے میں سنتا  رہتا تھا۔ بعد ازاں اُس کا مجموعۂ کلام بھی نظر نواز ہوا۔ غزلوں پر طائرانہ نظر ڈالتا ہوا ،ورق گردانی کرتے کرتے، کئی مقامات پر آہ کے لیے اور واہ کے لیے ٹھہرا ، متحیر ہواکہ وہ اپنے کئی معاصر شعرا کے برعکس مشکل پسندی سے اجتناب کرتا ہے۔ مشکل ردیف و قافیہ سے پہلو بچاتا ہے۔ مگر اُس کی شاعرانہ نگاہ بہت سے دیگر شعرا سے آگے تک دیکھتی ہے۔اس لیے وہ روایتی ردیف ، قوافی اور استعارے بھی استعمال کرے تونئے مضامین نکالنے کا فن جانتا ہے۔کلام سے انتخاب نہ بھی کیا جائے اور سر سری جائزہ  لیا جائے تو کہنا پڑتا ہے کہ سادگی، روانی اور صفائی سے بیان کیے گئے گہرے فکری مضامین جدید حسیت سے مزین ہیں، اسلوب بیاں میں نیا پن ہے۔ غزل دامن دل پکڑتی اور قاری سے تقاضا کرتی ہے کہ سرسری نہ گزریں۔بے معانی فرسودہ غزلوں کے انبار میں تازہ کاری سمیٹے ہوے ہر غزل نکھری نکھر ی اور سجری سجری محسوس ہوتی ہے۔

نظر ملی تو ستاروں میں بانٹ دی میں نے
یہ روشنی بھی نظاروں میں بانٹ دی میں نے

زمیں آباد ہوتی جا رہی ہے
کہاں جائے گی تنہائی ہماری

کسی طرف بھی مجھے دیکھنے نہیں دیتا
اس آئنے نے تو پتھر بنا کے رکھ دیا ہے

کاشف نے اظہار کے جس سلیقے سے اپنے مشاہدات ،تخیلات، احساسات،اورجذبات اشعار میں پیش کیے ہیں،اُس سے کلام میں فکری سنجیدگی کا بخوبی اندازہ ہوجاتا ہے جو ابتذال سے دور ہے، ا ور اس میں حسن وعشق کی رعنائی کا آہنگ خوب خوب ملتا ہے، غزلیہ مضامین کا تنوع اور معنوی وسعت موجود ہے تا کہ شاعری نئے دور کے تقاضوں کو بخوبی پورا کرتی رہے، اس کے اسلوب وآہنگ سے ہر قاری متاثر ہوتا ہے، شاعر موصوف کی غزل میں اگرچہ اس قدر وسعت نہیں کہ وہ زندگی کے تمام پہلوؤں پر محیط ہو مگر شاعری  میں غزل تمام تر فنّی لوازم کے ساتھ مخصوص آہنگ اور اسلوب میں اپنے جلوے بکھیرتی نظر آتی ہے، وہ فن کی نزاکت اور باریکیوں پر نظر رکھتاہے، اس کے ہاں اظہار و بیان میں نغمگی اور فکر کی بے ساختگی ہے بڑی نرم روی اور شائستگی کے ساتھ، وہ سیدھے سادے انداز میں زندگی کی کٹھنائیوں، تلخ حقیقتوں اور سچائیوں کو اس قدر بے ساختگی کے ساتھ بیان کرتا ہے کہ پڑھنے والا سوز و گداز کی لہروں میں ہچکولے کھانے لگتا ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ اُس کے ہاں بالغ نظری ہے، اشعار میں حسن خیال کی معنی آفرینی تو ہے، لیکن خیالات کی ایسی سطحیت، سوقیانہ پن ، اخلاقی گراوٹ اور آزاد روی نہیں کہ جس کو پڑھ کر جسم انگڑائیاں لینے لگے۔ موصوف نے شعر کی پاکیزگی کا خیال رکھا ہے اور لیلائے غزل کو محبوب کے کوچے میں رسوا ہونے کے لیے نہیں چھوڑ دیا۔ اُس کے اشعار سے قاری اور سامع کی روح سرشار ہوتی ہے۔اگرچہ پیش کیے گئے خیالات کو نظریات تو نہیں کہا جا سکتا مگر وہ اُس کی محسوسات ضرور ہیں جو غزلوں میں جھلکتی ہیں یہ سب اُس کی شخصیت کا پرتو اور اور فکر کی آئینہ دار ہیں۔اس کے مزاج میں سادگی اور بے ساختہ پن ہے اور یہ اوصاف اُس کی ذات سے ہوتے ہوئے شاعری میں بھی در آئے ہیں۔کاشف کے مزاج کا دھیما پن اُس کے شعری لہجے میں ڈھل گیا ہے۔یوں لگتا ہے کہ اُس کی چوٹ ایسی پرانی چوٹ ہے جو سردی میں درد کا احساس دلا کر ،آگ لگا دیتی ہے۔
مجھے نئی نسل کے تین شعرا نے خوب متوجہ کیا ہے ۔جب بھی مشاعروں میں اُن کو سنا یا اُن کا کلام زیر مطالعہ آیا ۔ فکر کے کئی در وا ہوئے اور خوش گوار حیرت ہوئی۔شاعری بالخصوص غزل کے روشن امکانات کے حوالے سے ایمان تازہ ہوا۔کراچی میں مقیم نئی نسل کا شاعر آزاد حسین آزاد اچھاشعر کہہ رہاہے۔اُس کی ترکیب سازی لطف دیتی ہے۔ وہ مشکل ردیف قوافی میں اچھے شعر نکالتاہے ، ردیف قافیے کی بندش بھی خوب ہوتی ہے۔ اُس کے ہاں شعر اکائی کی صورت نظر آتا ہے کہیں دو لخت نہیں ہوتا اور نہ ہی ابہام یا ابلاغ کا مسئلہ پیدا ہوتا ہے۔ البتہ قدر ے مشکل پسندی اور ترکیب سازی کی کثرت کی وجہ سے شعر جذبے کے گداز سے کئی مقامات پر تہی دامن ہو جاتا ہے اور تاثیر کھو بیٹھتا ہے۔ دلاور علی آذر .اپنی تخلیقی قوت سے جذبات و احساسات کو مجسم کر نے کا ہُنر  جانتا ہے۔ اُس کے ہاں بھی اچھوتے اور دلفریب مضامین کی کمی نہیں۔وہ اس کوشش میں رہتا ہے کہ اسلوبِ بیاں کی انفرادیت قائم رہے جس کے لیے وہ ردیف اور قافیے پر گہری نظر رکھتا ہے۔اُس کے اظہار بیاں اور فکر میں اعتماد جھلتا ہے ۔آذر اور آزاد کی نسبت کاشف حسین غائر سادہ اور رواں اسلوب بیاں کے شاعر ہیں۔وہ کافی عرصے سے شعر کہہ رہا ہے اور معاصر نسل کی نمائندگی کرتا ہے ، تجربے کے شعور اور جذبے کے سوز اور گداز میں گندھے ہوئے شعر کہتا ہے۔جس کی وجہ سے کلام میں بے انتہا تاثیر پیدا ہوئی ہے۔

کچھ اتنی سہل نہ تھی دشتِ جاں کی آرائش
کہاں کہاں سے اُٹھا کر میں خار لایا ہوں

محفل میں قصہ گو کے علاوہ کوئی نہ تھا
آغاز اُس نے میری کہانی سے جب  کیا

دیے ہوں، پھول ہوں،بادل ہوں یا پرندے ہوں
یہ سب ہوا کے ستائے ہوئے سے لگتے ہیں

یہ دیکھنے کو جاتا ہوں اُس شہر بار بار
کس کس کو میری نقل مکانی کا دکھ ہوا

اُس نے ترقی پسندوں کی طرح شاعری کو افادی نقطہ نظر سے نہیں پرکھا لیکن زندگی اور اس کے متعلقات کی دائمی سچائیوں پر نظر ضرور رکھی کہ آخر تخلیق کار بھی اسی سماج اور معاشرے کا فرد ہے۔ وہ بھی ہر تبدیلی سے متاثر ہوتا ہے۔ تو کیا ضروری ہے کہ وہ اپنے اوپر کوئی نظریہ مسلط کرے۔ احساس ، مشاہدہ، خلوص اور اظہار کا سلیقہ ہونا کافی ہے ۔اُس نے بہت سی جگ بیتیوں کو ہڈ بیتیاں بنا کر پیش کیا ہے، اُس نے مشاہداتی کیفییات کو اپنے اوپر اس طرح طاری کیا ہے کہ جیسے زندگی اور اس کے متعلقات کے بہت سے تجربات کا ذائقہ وقت سے پہلے چکھ لیا ہو ۔یوں اُس کی غزل ایک طرف توقارئین کے جمالیاتی احساس کی تسکین کا سامان ہے تو دوسری طرف زندگی کی نا ہمواریوں اور بد نمائیوں کو ذمے داری کے ساتھ بیان کرتی ہے ۔

بستی میں اک چراغ کے جلنے سے رات بھر
کیا کیا خلل پڑا ہے ستاروں کے کام میں

کون دیکھے گا تجھے، کون دکھائی دے گا
ہو گیا شہر بیابان، کہاں جاتا ہے

بھاگ سکتا ہے کہاں دل کی عدالت سے کوئی
ہے یہی حشر کا میدان، کہاں جاتا ہے

خدا  کرے نہ کوئی ان میں نامہ بر نکلے
کہ جو پرندے میں کر کے شکار لایا ہوں

اِن لکیروں میں تو احوال چھپا ہے میرا
یہ لکیریں جو پڑی ہیں مری پیشانی پر

کاندھوں پہ تیرے آبرو مندی کا بوجھ ہے
یہ راہِ زندگی ہے قدم سوچ کر اُٹھا

وہ سوال جو ہر  سخن فہم قاری کے ذہن میں آتا ہے کہ کیا شعر میں شعریت ہے اور کیا شاعر شعر کو شعر بنا سکا ہے؟کاشف نے روایت سے استفادہ ضرور کیا ہے مگر یاسیات، غم پرستی، خواہش مرگ، فراریت، جام و سبو، وعظ و پند کے مضامین اُس کے ہاں ندارد ہیں۔ دوسری طرف موصوف نے سلیم احمد کی اینٹی غزل سے کامل اجتناب کیا ہے اور اپنے استعارے مناظر فطرت سے کشید کر کے اظہار اور اسلوب کی کوملتاکو متاثر  نہیں ہونے دیا۔وہ سنجیدہ غزل گو ہے مگر فلسفیانہ موشگافیوں سے کلام کو بو جھل نہیں ہونے دیتا۔مضامین اگرچے بہت بڑے نہیں مگر خیال کی نزاکت ، اس بات پر یقین کرنے کے لیے کافی ہے کہ وہ ایک مکمل شاعر ہے۔

 آج کل خواب کے بارے میں ہے تشویش مجھے
آنکھ کھلتے ہی یہ مہمان کہاں جاتا ہے

مندرجہ ذیل اشعار ملاحظہ کیجیے ۔برسوں کی ان تھک ریاضت کے بعد ایسے اشعار کہے جاتے ہیں۔ کاشف حسین غائر نے یہ سفر بہت کم وقت میں طے کیا ہے۔جس کے لیے وہ مبارک باد کا مستحق ہے۔

دو دن سے زیادہ ہمیں رہنا ہی نہیں تھا
دو دن کے لیے کیا در و دیوار بناتے

تصویر میں بھرتے رہے رنگوں سے اُجالا
کاغذ پہ رہے صبح کے آثار بناتے

ایک نا دیدہ  سی زنجیر لیے پھرتی ہے
اپنی مرضی سے یہ انسان کہاں جاتا ہے

Related posts

Leave a Comment