نعت ۔۔۔ سرور حسین نقشبندی

ذہن جب نعت کے انوار میں کھو جاتا ہے
اک اجالا میرے اطراف میں ہو جاتا ہے

واسطہ ان کا جو دیتا ہوں کسی مشکل میں
کام جو کوئی نہ ہوتا ہو وہ ہو جاتا ہے

کوئی تفریق نہیں اپنے پرائے کی وہاں
بھر کے دامن کو چلا آتا ہے جو جاتا ہے

جانے اس شہر میں جا کر میری کیا حالت ہو
ذکر جس کا میری پلکوں کو بھگو جاتا ہے

ایک جھونکا سا گزرتا ہے سرِ شامِ ثنا
خوشبوئیں میرے دل وجاں میں سمو جاتا ہے

تازہ دم ہو کے نکلتا ہوں نئی نعت لئے
بحرِ مدحت میں کوئی مجھ کو ڈبو جاتا ہے

رات ہوتی ہے بسر خلد بریں میں اس کی
نعت ِ سرکار جو لکھتے ہوئے سو جاتا ہے
کوئی جا سکتا نہیں در پہ اجازت کے بغیر
اذن ملتا ہے کسی شخص کو تو جاتا ہے

شہرِ سرکار کی اک اپنی کشش ہے واللہ
پھر بھی جانے کی طلب رکھتا ہے جو جاتا ہے

کاش سرور پہ بھی برسے وہ سحاب رحمت
جرم عصیاں کی سیاہی کو جو دھو جاتا ہے

Related posts

Leave a Comment