عدیل شاہ … چاک پر پھر گھما دیا گیا ہوں

چاک پر پھر گھما دیا گیا ہوں کیا تھا میں کیا بنا دیا گیا ہوں زندگی تھی وہ اور زہر تھا میں اور اُسے میں پلا دیا گیا ہوں پہلے قطرہ تھا پھر میں دریا تھا پھر سمندر بنا دیا گیا ہوں جبر تھا کاٹ ہی لیا میں نے صبر تھا آزما دیا گیا ہوں ہائے ناقابلِ فراموشی ہائے میں بھی بھلا دیا گیا ہوں

Read More

جانِ عالم ۔۔۔ سب کے حصے میں نہ آئی یہ سعادت آ ہا

سب کے حصے میں نہ آئی یہ سعادت آ ہا میں اکیلا ہوں سرِ کوئے ملامت آ ہا میں نہیں اُس کا رہا اور یہ گماں ہے اُس کو ہے مجھے آج بھی اُس سے ہی محبت آ ہا میری چاہت کا تقاضا ہے کہ تُو بھی چاہے چاہتا ہوں میں محبت کی بھی اجرت آ ہا میرے دیدار کو اُتری ہے تجلی اُس کی ایک ذرے کی ہے سورج سے یہ نسبت آ ہا اب تو ہر کام اٹھا رکھا ہے کل پر ہم نے کس قدر پہلے تھی…

Read More

حامدؔ یزدانی … تم بھی علامت ہو (اعزاز یافتہ شاعرجاہدؔالحق اور اس کی بنگلہ نظمیں)

تم بھی علامت ہو (اعزاز یافتہ شاعرجاہدؔالحق اور اس کی بنگلہ نظمیں) تحریر: حامدؔ یزدانی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تم بھی تو تصویر میں شامل اک تصویرہی تھیں اک کھلتی تصویر سینے میں در وا کرتی اک روشن سی تصویر۔۔۔ ۔۔۔۔دیکھو نا، ارے دیکھو نا! کیا تمہیں یہ تصویر دکھائی دیتی ہے؟ ابھی ابھی مِری آنکھیں تم کو ڈھونڈ رہی تھیں۔(تصویر) ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ’’ریڈی !۔۔۔سمائل۔۔۔!‘‘ کلک۔۔۔کلک۔۔۔کلک۔ ’’لیجیے، اپنا کیمرہ۔ تین تصویریں لی ہیں۔ ایک تو اچھی آہی جائے گی۔‘‘ ریڈیو ڈوئچے ویلے (دی وائس آف جرمنی) کولون کی رُکن اور جرمنی میں ہمارے اوّلین…

Read More

شفیق سلیمی ۔۔۔ مرے وجود سے باہر نکل گیا ہے کدھر

مرے وجود سے باہر نکل گیا ہے کدھر دھمال میں تھا قلندر نکل گیا ہے کدھر دھنک کے رنگ اڑاتا ہوا ہوائوں میں نظر سے میری وہ منظر نکل گیا ہے کدھر ہوئی ہیں کوششیں سب رائگاں رہائی کی نکالنا تھا کدھر در، نکل گیا ہے کدھر تری پناہ میں آیا نہیں تو دشت بتا انا پرست وہ خود سر نکل گیا ہے کدھر وہ ریگزارِ تمنا کی خاک اڑاتے ہوئے پھلانگتا سبھی ساگر نکل گیا ہے کدھر اڑان بھرنے کا یارا نہیں اسے تو شفیقؔ ٹھکانہ چھوڑ کے بے…

Read More

مظفر حنفی ۔۔۔ ہر طرف گرداب ہے یا موجِ خود سر اور ہم

ہر طرف گرداب ہے یا موجِ خود سر اور ہم آج کل ہے ذات کا گہرا سمندر اور ہم کھل گیا سب کو ہمارا آئینے جیسا وجود ہر تماشائی کے ہاتھوں میں ہے پتھر اور ہم جسم میں شہہ رگ ہماری یوں کھٹکتی ہے کہ بس کیسے ہم رِشتہ ہوئے ہیں نوکِ خنجر اور ہم وسعتیں آواز دیتی ہیں کہ موقع ہے یہی حسرتِ پرواز ہے ، ٹوُٹے ہوئے َپر اور ہم آمدِ محبوب پر غالبؔ کی حیرت یاد ہے یہ بھی قدرت ہے خدا کی ، آپ کا گھر…

Read More