کثیرالجہت شخصیت صفدر ہمدانی  کی ادب کہانی … ظفر معین بلے جعفری

کثیرالجہت شخصیت صفدر ہمدانی  کی ادب کہانی کہتے ہیں کہ ہرمرد کی کامیابی کے پیچھے ایک عورت کا ہاتھ ہوتا ہے اور ہم محترم صفدر ہمدانی کی کامرانی کودیکھیں تو اس حقیقت کوتسلیم کئے بغیرکوئی چارہ نہیں کہ ان کی کامیابیوں اور کامرانیوں کے پیچھے محض ان کی جیون ساتھی کاہاتھ نہیں بلکہ وہ سرتاپا کارفرمانظرآتی ہیں۔ اور ہمارے محترم صفدر ہمدانی صاحب کسی جھجھک کے بغیر برسر محفل اس حقیقت کے معترف بھی دکھائی دیتے ہیں ۔ محترم صفدر ہمدانی ایک زندہ دل ادبی شخصیت ہی نہیں ، ایک…

Read More

دردانہ نوشین خان ۔۔۔۔ 22ویں صدی کے آدم زادو

22ویں صدی کے آدم زادو ۔۔۔۔۔۔۔……………………. 22ویں صدی کے آدم زادو! تم کیسے ہو گے؟؟ ہم جیسے ہو گے؟؟ کیسے اُڑتے ، اُترتے ، زمین پہ چلتے ہو گے کیا پہنتے ، کیا بولتے کیا خواب رکھتے ہو گے تمھاری محفلیں بھی تو ہوں گی وہ کیسی ہوں گی؟؟ لمبی مسافتوں کی کہانیاں تو مر چکیں نئی ایجادوں پہ اُنگلیوں کا یا انگلیوں کابھی نہیں… رگوں میں مدخول نظریوں کا عجب کوئی اسرار ہو گا متروک جذبوں کی مسند پہ حکم کوئی سردار ہو گا 22ویں صدی کے آدم زادو!…

Read More

نعت رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم ۔۔۔ محمد یٰسین قمر

یہ اک ستارہ جوپلکوں پہ اب سجا ہوا ہے مرے کریم کے در سے مجھے عطاہوا ہے فرازِ عرش کو چوما ہے میری قسمت نے حضورِ احمدِؐ مرسل یہ سر جھکا ہوا ہے ازل سے روحِ رواں کو ہے آپؐ سے نسبت مرے خمیر میں ذوقِ ثنا گندھاہوا ہے رسولِؐؐ رحمتِ عالم کا ہے کرم مجھ پر یہ گرد بادِ الم اس لیے رکا ہوا ہے یہ کس کی یاد کا پرتو ہے میرے لہجے میں کہ میرے لفظوں میں اک نور سا گھلا ہوا ہے صدائے صلِّ علیٰ آئی…

Read More

میتھیو محسن ۔۔۔ چاہت کا دریا تو بہتا رہتا ہے

چاہت کا دریا تو بہتا رہتا ہے شہر مگر کیوں پھر بھی پیاسا رہتا ہے سورج چاند ستارے سارے لے کر بھی اندھیاروں سے انساں لڑتا رہتا ہے باہر موسم کیسا بھی ہو کوئی ہمیں دل کی راہ میں اکثر ملتا رہتا ہے کس سے اپنے دل کا حال کہیں آخر چھپ کر وہ تو سب کچھ سنتا رہتا ہے بے شک بینائی بھی چھن جائے تو کیا اپنا لکھا ہر کوئی پڑھتا رہتا ہے محسن تند ہوائوں میں بھی ایک دیا دریا کے ساحل پر جلتا رہتا ہے

Read More

آفتاب محمود شمس ۔۔۔ مانگ لائے جو زمانے سے ادھارے ، اکثر

مانگ لائے جو زمانے سے ادھارے ، اکثر سارے لمحے تری یادوں میں گزارے اکثر پھر سے ملنا ہو مقدر میں نہ شاید اب کے دور جا کر وہ نگاہوں سے پکارے اکثر وہ محبت گو مکیں ہے مرے دل میں اب تک جو چمکتے ہیں یہ پلکوں پہ ستارے اکثر تم بھی کرتے ہو تکلم جو بہاروں سے اب دل یہ میرا بھی شجر کو ہے پکارے اکثر اپنی بیٹی کا جنم دن وہ منائے گا کب بیچتا ہے یہ جو گلیوں میں غبارے اکثر

Read More

فیض رسول فیضان ۔۔۔ اکثر زبانِ حال سے کچھ بولتا بدن

اکثر زبانِ حال سے کچھ بولتا بدن منہ بند رکھ کے دل کی گرہ کھولتا بدن انکار کر کے پاس بلاتی ہوئی نظر میزانِ رخ پہ جنسِ ہوس تولتا بدن آنکھوں سے لے کے روح کی گہرائیوں تلک شیرینیاں نچوڑ کے رس گھولتا بدن قرب و گریز کے سبھی اَسرار سر بسر فیّاض ساعتوں میں مگر کھولتا بدن محرومیوں پہ نوحہ کناں جوہرِ حیات مٹی میں اپنے لعل و گہر رولتا بدن فیضانؔ بن گلابِ انا الحق کا عندلیب دار و رسن کی شاخ پہ رکھ ڈولتا بدن

Read More

امر مہکی ۔۔۔ اُونچے گھر کا ہے اُونچا دروازہ

اُونچے گھر کا ہے اُونچا دروازہ کم ہی کُھلتا ہے ایسا دروازہ سُرخ دیوار پر ہری بیلیں درمیاں پھول جیسا دروازہ کاش ! اِک دوسرے پہ کُھل سکتے میں ہوں اور تیرے گھر کا دروازہ کوئی دیوار کیا اُٹھائے گا دل میں کُھلتا ہے تیرا دروازہ کسی آہٹ کی منتظر کھڑکی کسی دستک کا پیاسا دروازہ کتنے دروازے ہیں گلی میں امر پھر بھی تنہا ہے اپنا دروازہ

Read More

نسیمِ سحر ۔۔۔ سہ سطریاں

پاکستان، جو ہم سب کی اُمّیدوں کا سرمایا ہے پاکستان، کہ جس سے ہم نے جو کچھ چاہا، پایا ہے ہم سے پوچھ رہا ہے، ہم نے اس کو کیا لوٹایا ہے؟ ٭ کبھی یہ غور تو کرناسبب ہے کیا اس کا؟ وفا کے ذکر پہ سب میری بات کرتے ہیں جفا کے ذکر پہ سب تیری بات کرتے ہیں ! ٭ شہر کے مرکزی چوراہے پر چاروں سگنل ہی سُرخ رہتے ہیں اور ٹریفِک بلاک رہتی ہے ! ٭ اب تو ایسا لگتا ہے جتنی سانسیں باقی ہیں اتنی…

Read More

وسیم جبران ۔۔۔ ویرانی سے خوف آتا ہے

ویرانی سے خوف آتا ہے دل میں کتنا سناٹا ہے ناممکن ہے جس سے ملنا دل بھی ملا تو کس سے ملا ہے میرے لبوں پر پھول کھلے ہیں جب بھی تیرا نام لیا ہے ہاتھ اٹھائے ہوں گے اُس نے رنگِ شفق یا رنگِ حنا ہے آفت آکر ٹل جائے گی ماں کے لب پر حرفِ دعا ہے اب تک دل میں خلش ہے اس کی اب تک دل جو کہہ نہ سکا ہے اب جو جلتا ہے سینے میں تیری یاد کا وہ شعلہ ہے جبرانؔ اُس کا…

Read More

“In the Name of the Mother” comes to Iranian bookstores

Neda Alizadeh Kashani is the translator of the book, which was first published in 2006. “In the name of the father”: marks the beginning of the sign of the cross whereas “In the Name of the Mother” marks the beginning of life: with these words Erri de Luca introduces a text steeped in poetry full of soil and wind, yet never refined high-sounding, but almost smelling of dates and salt. We all know the Blessed Virgin’s story and the Annunciation, the story of Joseph and the Holy Child born in…

Read More