امر مہکی ۔۔۔ معصوم چاہتوں کا بھی کیا سلسلہ رہا

معصوم چاہتوں کا بھی کیا سلسلہ رہا دیوانگی تھی اور گریباں سِلا رہا نادان سی لگن میں عجب احتیاط تھی نزدیکیوں کے سحر میں بھی فاصلہ رہا آئی ہے زندگی میں خزاں بارہا مگر جو پھول شاخ ِ دل پہ کِھلا تھا کِھلا رہا وہ چاند تھا کہ چہرہ کسی کا تھا جھیل میں منظر میں اور ہی کوئی منظر مِلا رہا جنموں کی پیاس بجھ نہیں پاتی کبھی امر صحرا کو بارشوں سے ہمیشہ گِلہ رہا

Read More

امر مہکی ۔۔۔ اُونچے گھر کا ہے اُونچا دروازہ

اُونچے گھر کا ہے اُونچا دروازہ کم ہی کُھلتا ہے ایسا دروازہ سُرخ دیوار پر ہری بیلیں درمیاں پھول جیسا دروازہ کاش ! اِک دوسرے پہ کُھل سکتے میں ہوں اور تیرے گھر کا دروازہ کوئی دیوار کیا اُٹھائے گا دل میں کُھلتا ہے تیرا دروازہ کسی آہٹ کی منتظر کھڑکی کسی دستک کا پیاسا دروازہ کتنے دروازے ہیں گلی میں امر پھر بھی تنہا ہے اپنا دروازہ

Read More

امر مہکی ۔۔۔ دل سے نہیں نکلنے کی ایسی رچی کسک

دل سے نہیں نکلنے کی ایسی رچی کسکدن رات ، صبح و شام ہی ہونے لگی کسک ہر وقت ہے نئے سے نئے درد کا الاپ ہر لمحہ ہر گھڑی ہے نئی سے نئی کسک پہلے بھی دل میں ہوتی رہی ہے چبھن مگراب کے ہے کچھ عجیب سی ، بے نام سی کسک جانے وہ کس کی یاد تھی دل میں رکی نہیںدستک دی اور چھوڑ گئی بے کلی کسک

Read More

امر مہکی ۔۔۔ دن چڑھنے کی کمرے میں ضیا بھی نہیں آئی

دن چڑھنے کی کمرے میں ضیا بھی نہیں آئی کھڑکی سے تر و تازہ ہوا بھی نہیں آئی آہٹ ترے جانے کی سنائی دی ذرا سی پھر دل کے دھڑکنے کی صدا بھی نہیں آئی دہلیز پہ تنہائی نے کیا پہرہ دیا ہے آیا نہ کوئی ملنے ، صبا بھی نہیں آئی کیا آگ سی دہکاتی رہی مجھ کو مسلسل میں جلتا رہا اور جِلا بھی نہیں آئی شاداب علاقوں ہی میں ہوتی رہی بارش صحرا میں امر پیاسی گھٹا بھی نہیں آئی

Read More