استاد قمر جلالوی ۔۔۔ اگر صیاد یہ بجلی نشیمن پہ گری ہو گی

اگر صیاد یہ بجلی نشیمن پہ گری ہو گی دھواں تنکوں سے اٹھے گا چمن میں روشنی ہو گی ستم گر حشر میں وہ بھی قیامت کی گھڑی ہو گی ترے دامن پہ ہوگا ہاتھ دنیا دیکھتی ہو گی مجھے شکوے بھی آتے ہیں مجھے نالے بھی آتے ہیں مگر یہ سوچ کر چپ ہوں کی رسوا عاشقی ہو گی تو ہی انصاف کر جلوہ ترا دیکھا نہیں جاتا نظر کا جب یہ عالم ہے تو دل پر کیا بنی ہو گی اگر آ جائے پہلو میں قمر وہ ماہِ…

Read More

استاد قمر جلالوی ۔۔۔ کیا سے کیا یہ دشمن جاں تیرا پیکاں ہو گیا

کیا سے کیا یہ دشمنِ جاں تیرا پیکاں ہو گیا تھا کماں تک تیر دل میں آ کے ارماں ہو گیا باغباں کیوں سست ہے غنچہ و گل کی دعا اک مرے جانے سے کیا خالی گلستان ہو گیا کیا خبر تھی یہ بلائیں سامنے آ جائیں گی میری شامت مائلِ زلفِ پریشاں ہو گیا کچھ گلوں کو ہے نہیں میری اسیری کا الم سوکھ کر کانٹا ہر اک خارِ گلستاں ہو گیا ہیں یہ بت خانے میں بیٹھا کر رہا کیا کیا قمر ہم تو سنتے تھے تجھے ظالم…

Read More

استاد قمر جلالوی ۔۔۔ دل انھیں کیا دیا قرار نہیں

دل انھیں کیا دیا قرار نہیں عشق کو حسن ساز گار نہیں دل کے اوپر نگاہِ یار نہیں تیر منت کشِ شکار نہیں اب انھیں انتظار ہے میرا جب مجھے ان کا انتظار نہیں شکوۂ بزمِ غیر ان سے عبث اب انھیں اپنا اعتبار نہیں منتظر شام کے رہو نہ قمر ان کے آنے کا اعتبار نہیں

Read More

استاد قمر جلالوی ۔۔۔ کچھ تو کہہ دے کیا کریں اے ساقیِ مے خانہ ہم

کچھ تو کہہ دے کیا کریں اے ساقیِ مے خانہ ہم اپنی توبہ توڑ دیں یا توڑ دیں پیمانہ ہم دل عجب شے ہے یہ پھر کہتے ہیں آزادانہ ہم چاہے جب کعبہ بنا لیں چاہے جب بت خانہ ہم داستانِ غم پہ وہ کہتے ہیں یوں ہے یوں نہیں بھول جاتے ہیں جو دانستہ کہیں افسانہ ہم اپنے در سے آ جائے ساقی ہمیں خالی نہ پھیر مے کدے کی خیر ہو آتے نہیں روزانہ ہم مسکرا دیتا ہے ہر تارا ہماری یاد پر بھول جاتے ہیں قمر اپنا…

Read More

استاد قمر جلالوی ۔۔۔۔ کیونکر رکھو گے ہاتھ دلِ بے قرار پر

کیونکر رکھو گے ہاتھ دلِ بے قرار پر میں تو تہِ مزار ہوں تم ہو مزار پر یہ دیکھنے، قفس میں بنی کیا ہزار پر نکہت چلی ہے دوشِ نسیم بہار پر گر یہ ہی جور و ظلم رہے خاکسار پر منہ ڈھک کے روئے گا تو کسی دن مزار پر ابرو چڑھے ہوئے ہیں دلِ بے قرار پر دو دو کھنچی ہوئی ہیں کمانیں شکار پر رہ رہ گئی ہیں ضعف سے وحشت میں حسرتیں رک رک گیا ہے دستِ جنوں تار تار پر شاید چمن میں فصلِ بہاری…

Read More

استاد قمر جلالوی ۔۔۔

حسن سے رسوا نہ ہو گا اپنے دیوانے کا نام شمع رو دے گی مگر نہ لے گی پروانے کا نام ہو گئی توبہ کو اک مدت کسے اب یاد ہے اصطلاحاً ہم نے کیا رکھا تھا پیمانے کا نام میتِ پروانہ بے گور و کفن دیکھا کئے اہلِ محفل نے لیا لیکن نہ دفنانے کا نام یہ بھی ہے کوئی عیادت دو گھڑی بیٹھے نہ وہ حال پوچھا چل دیے گھر کر گئے آنے کا نام لاکھ دیوانے کھلائیں گل چمن کہہ دے گا کون عارضی پھولوں سے بدلے…

Read More

استاد قمر جلالوی ۔۔۔ حرم کی راہ کو نقصان بت خانے سے کیا ہوگا

حرم کی راہ کو نقصان بت خانے سے کیا ہوگا خیالاتِ بشر میں انقلاب آنے سے کیا ہوگا کسے سمجھا رہے ہیں آپ سمجھانے سے کیا ہوگا بجز صحرا نوردی اور دیوانے سے کیا ہوگا ارے کافر سمجھ لے انقلاب آنے سے کیا ہوگا بنا کعبہ سے بت خانہ تو بت خانے کو کیا ہوگا نمازی سوئے مسجد جا رہے ہیں شیخ ابھی تھم جا نکلتے کوئی دیکھے گا جو مے خانے سے کیا ہوگا خدا آباد رکھے میکدہ یہ تو سمجھ ساقی ہزاروں بادہ کش ہیں ایک پیمانے سے…

Read More

استاد قمر جلالوی ۔۔۔ نہ طے کرتا تو رہتا قصۂ تیغِ گلوں برسوں

نہ طے کرتا تو رہتا قصۂ تیغِ گلوں برسوں خدا رکھے تجھے قاتل رہے دنیا میں تو برسوں خدا کی شان واعظ بھی ہجوِئے مئے کرے مجھ سے کہ جس نے ایک اک ساغر پہ توڑا ہے وضو برسوں بہارِ گل میں نکلے خوب ارماں دشتِ وحشت کے رفو گر نے کیا دامن کی کلیوں پر رفو برسوں قفس کی راحتوں نے یاد گلشن کی بھلا ڈالی نہ کی صیاد کے گھر آشیاں کی آرزو برسوں قفس میں خواب جب دیکھ کوئی دیکھا بہاروں کا دماغِ اہلِ گلشن میں رہی…

Read More

استاد قمر جلالوی ۔۔۔ نہ روکی برق تو نے آشیاں بدلے چمن بدلے

نہ روکی برق تو نے آشیاں بدلے چمن بدلے یہ کب کے لے رہا ہے ہم سے اے چرخِ کہن بدلے محبت ہو تو جوئے شِیر کو اِک ضرب کافی ہے کوئی پوچھے کہ تو نے کتنے تیشے کوہکن بدلے سہولت اس سے بڑھ کر کارواں کو اور کیا ہو گی نئی راہیں نکل آئیں پرانے راہزن بدلے ہوا آخر نہ ہمسر کوئی ان کے روئے روشن کا تراشے گل بھی شمعوں کے چراغِ انجمن بدلے لباس نَو عدم والوں کو یوں احباب دیتے ہیں کہ اب ان کے قیامت…

Read More

حفیظ جونپوری ۔۔۔ زمانے کا بھروسا کیا ابھی کچھ ہے ابھی کچھ ہے

زمانے کا بھروسا کیا ابھی کچھ ہے ابھی کچھ ہے یہی ہے رنگ دنیا کا، ابھی کچھ ہے ابھی کچھ ہے جوانی کی ہے آمد، حسن کی ہر دم ترقی ہے تری صورت، ترا نقشہ ابھی کچھ ہے ابھی کچھ ہے نہ آئے گا قرار اس کو نہ ممکن ہے قیام اس کو ہمارا دل ترا وعدہ ابھی کچھ ہے ابھی کچھ ہے کبھی تو جستجو اس کی کبھی گم آپ ہو جانا مری وحشت مرا سودا، ابھی کچھ ہے ابھی کچھ ہے غرورِ حسن ہے سر میں خیالِ دلبری…

Read More