استاد قمر جلالوی ۔۔۔ نہ طے کرتا تو رہتا قصۂ تیغِ گلوں برسوں

نہ طے کرتا تو رہتا قصۂ تیغِ گلوں برسوں
خدا رکھے تجھے قاتل رہے دنیا میں تو برسوں

خدا کی شان واعظ بھی ہجوِئے مئے کرے مجھ سے
کہ جس نے ایک اک ساغر پہ توڑا ہے وضو برسوں

بہارِ گل میں نکلے خوب ارماں دشتِ وحشت کے
رفو گر نے کیا دامن کی کلیوں پر رفو برسوں

قفس کی راحتوں نے یاد گلشن کی بھلا ڈالی
نہ کی صیاد کے گھر آشیاں کی آرزو برسوں

قفس میں خواب جب دیکھ کوئی دیکھا بہاروں کا
دماغِ اہلِ گلشن میں رہی گلشن کی بو برسوں

قمر یہ کیا خبر تھی وہ ہمارے دل میں رہتے ہیں
رہی جن کے لیئے دیر و حرم میں جستجو برسوں

Related posts

Leave a Comment