ارشد شاہین

درد سہتا ہوں مگر شور مچاتا کم ہوں ضبط کرتا ہوں بہت ، اشک بہاتا کم ہوں آسماں سر پہ اٹھاتا نہیں غم میں اکثر اور خوشیوں میں بھی مَیں ڈھول بجاتا کم ہوں ٹوٹ جائے نہ بھرم میری انا کا یک سر آئنے! یوں بھی ترے سامنے آتا کم ہوں جانتا ہوں کہ مجھے کیسا سفر ہے در پیش سو مَیں ہمت سے سوا ، بوجھ اٹھاتا کم ہوں مَیں کہ واقف ہوں تعلق کے تقاضوں سے میاں شوق رکھتا ہوں مگر دوست بناتا کم ہوں میرے بارے میں…

Read More