ارشد شاہین

درد سہتا ہوں مگر شور مچاتا کم ہوں
ضبط کرتا ہوں بہت ، اشک بہاتا کم ہوں

آسماں سر پہ اٹھاتا نہیں غم میں اکثر
اور خوشیوں میں بھی مَیں ڈھول بجاتا کم ہوں

ٹوٹ جائے نہ بھرم میری انا کا یک سر
آئنے! یوں بھی ترے سامنے آتا کم ہوں

جانتا ہوں کہ مجھے کیسا سفر ہے در پیش
سو مَیں ہمت سے سوا ، بوجھ اٹھاتا کم ہوں

مَیں کہ واقف ہوں تعلق کے تقاضوں سے میاں
شوق رکھتا ہوں مگر دوست بناتا کم ہوں

میرے بارے میں مرے دوست یہی جانتے ہیں
مَیں سرِ دشتِ انا خاک اڑاتا کم ہوں

کون ہے آج تلک جس کی بنی ہے تجھ سے
یوں بھی دنیا! مَیں ترے ناز اٹھاتا کم ہوں

رب نے رکھی ہے طبیعت میں سخاوت ایسی
خرچ کرتا ہوں بہت، داد کماتا کم ہوں

مست رہتا ہوں شب و روز کسی مستی میں
آ بھی جاتا ہوں اگر ہوش میں آتا کم ہوں

اس لیے بھی نظر انداز کیا جاتا ہوں
پیار کرتا ہوں جسے اس کو جتاتا کم ہوں

میرے احباب کو مجھ سے یہ گلہ رہتا ہے
شعر کہتا ہوں مگر ان کو سناتا کم ہوں

مجھ کو معلوم ہے ہستی کی حقیقت ارشد
اپنے ہونے کا جو احساس دلاتا کم ہوں

Related posts

Leave a Comment