ستمِ کامیاب نے مارا
کرمِ لا جواب نے مارا
خود ہوئی گم، ہمیں بھی کھو بیٹھی
نگہِ بازیاب نے مارا
زندگی تھی حجاب کے دم تک
برہمئ حجاب نے مارا
عشق کے ہر سکونِ آخر کو
حسن کے اضطراب نے مارا
خود نظر بن گئی حجابِ نظر
ہائے اس بے حجاب نے مارا
میں ترا عکس ہوں کہ تو میرا
اس سوال و جواب نے مارا
کوئی پوچھے کہ رہ کے پہلو میں
تیر، کیا اضطراب نے مارا
بچ رہا جو تری تجلی سے
اُس کو تیرے حجاب نے مارا
اَب نظر کو کہیں قرار نہیں
کاوشِ انتخاب نے مارا
سب کو مارا جگر کے شعروں نے
اور جگر کو شراب نے مارا