اے رسم و راہِ شہر کے محتاط ظرف رنگ
ٹھوکر بھی کھا کے آیا نہ جینے کا ہم کو ڈھنگ
آتی نہیں ہے سطحِ یقیں پر وفا کی لہر
رہتی ہے صبح و شام مزاجوں میں سرد جنگ
ہر صبح دُکھ سے چور ملا زخم زخم جسم
ہر شب تھرک تھرک گیا آہٹ پہ انگ انگ
تھا جس سے میرے سچ کے تحمل کا ربطِ خاص
اترا اسی کے غم کا مری روح میں خدنگ
ناآشنائے لذتِ لہجہ تھے سب ہی لوگ
کیا کیا بساطِ لب پہ بکھیری نہ قوسِ رنگ
پیشِ نظر ہے اب بھی کوئی پیکر لطیف
اب بھی ہے دل میں کتنی ہی یادوں سے جلترنگ
میری وجہ سے تو بھی ہوا شہر میں خراب
تیرے سبب ہے مجھ پہ بھی ہر رہگذار تنگ
کچھ تو بتا اے خواہشِ ایذا پسند دل!
کب تک رہے تعاقبِ حاصل میں ہر اُمنگ
سوچوں تو کوئی حلِ مسائل نہ مل سکے
ہے ذہن کی تہوں میں حوادث سے اتنا زنگ
کس نے کہا تھا کھیل رچاؤ خلا میں تم
کیوں ہاتھ مل رہے ہو اگر کٹ گئی پتنگ
ہے منفرد مزاجِ معانی کی تمکنت
لفظوں کے پیرہن میں ہے میری انا کا رنگ
احمد لہو لہو ہے مرا پیکر نفس
دل پر ہیں داغِ رنج، بدن پر ہیں زخمِ سنگ