مرے ہی سانس کے بل پر فروغ پاتا ہوا
یہ کیسا شعلہ ہے مجھ میں جگہ بناتا ہوا
یہ ذوق ہے عمل انگیز کی طرح مجھ کو
اُفق اُفق مری رفتار کو بڑھاتا ہوا
ہزار نوری برس پر تھا میری رات سے دن
مَیں آپ مٹ گیا یہ فاصلہ مٹاتا ہوا
مَیں اپنے دُودھیا رستے سے ہو کے جاتا ہوں
زمیں سے اور کسی کہکشاں کو جاتا ہوا
کہیں نہ اپنی بصارت سے ہاتھ دھو بیٹھوں
اک آفتاب کو مَیں آئنے میں لاتا ہوا
خواص ،جانیے، کیا تھے دل اور دُنیا کے
میں خود جھلس گیا باہم انھیں ملاتا ہوا
کبھی اُترتا ہوا اپنی آخری تَہ تک
کبھی مَیں اپنے کناروں سے لوٹ آتا ہوا
کہیںمَیں ہوں بھی نہیں اور زمین والوں کو
دِکھائی دے بھی رہا ہوںمَیںجھلملاتا ہوا
پتہ نہیں کہ یہ جھونکا کدھر سے آیا ہے
مری اُداسی کو سرشار کرکے جاتا ہوا
دراصل سب کو مسرت میں کررہا ہوں شریک
کہیں کا عکس کہیں اورمَیں دِکھاتا ہوا
اور اب تو خود بھی مَیں ٹکڑوں میں بٹ گیا شاہدؔ
یہ مونتاج کسی کے لیے بناتا ہوا