تیرا انکار جو اقرار نہیں ہو سکتا
دل ترا حاشیہ بردار نہیں ہو سکتا
کیا ہواؤں کے قبیلے سے تعلق ہے ترا؟
تو چراغوں کا طرف دار نہیں ہو سکتا؟
تو نے جو رقص رچایا ہے بدن کے اندر
یہ تماشا سرِ بازار نہیں ہو سکتا؟
اے مری نیند پہ بہتان لگانے والے!
میں ترے خواب میں بیدار نہیں ہو سکتا؟
اشک کا پھول مری آنکھ پہ کھلنا ہے سعید
شاخ پہ رنج نمودار نہیں ہو سکتا
Related posts
-
عنبرین خان ۔۔۔ میری امید کا سرچشمہ ہیں آنکھیں اس کی
میری امید کا سرچشمہ ہیں آنکھیں اس کی ان سے پڑھ لیتی ہوں سب شوق کی... -
احمد جلیل ۔۔۔ دشتِ ویران تو اب اتنا بھی ویران نہ ہو
دشتِ ویران تو اب اتنا بھی ویران نہ ہو مجھ کو لگتا ہے کہیں گھر کا... -
مسعود احمد ۔۔۔ ابھی تک مارے مارے پھر رہے ہیں
ابھی تک مارے مارے پھر رہے ہیں یہ کیسے دن ہمارے پھر رہے ہیں کسی سے...