اک اک شے کے بھاؤ بدلتے دیکھے ہیں
ہم نے گھر، بازار میں ڈھلتے دیکھے ہیں
ہم تو جھیل ہیں، کائی اوڑھے لیٹے ہیں
چلنے والے نیند میں چلتے دیکھے ہیں
کیسی قیامت اپنے سر سے گزری تھی
کیا کیا سائے سر سے ڈھلتے دیکھے ہیں
چنگاری کو سورج بنتے دیکھا ہے
انگاروں کو شہر نگلتے دیکھے ہیں
ڈوبتے دیکھا قافلوں کو صحراؤں میں
لاشے دریاؤں سے نکلتے دیکھے ہیں
کس کے نام نے "میر” کے شعر کا روپ بھرا
کس کے نام پہ دیپ اچھلتے دیکھے ہیں
دل تو موم تھا، یارو! اس کا ذکر ہی کیا
ہم نے سنگ و خشت پگھلتے دیکھے ہیں
دَل بادل دلدل میں پھنسا دیتے ہیں نجیب
ہم نے تو جنگل بھی ابلتے دیکھے ہیں