سزاوار ۔۔۔۔۔۔ ساجد ہدایت

سزاوار
۔۔۔۔۔۔

وہ آج بھی ہمیشہ کی طرح بہت مقدس نظر آرہا تھا۔۔۔۔ چمکتے چہرے اور گہری اداس آنکھوں کے ساتھ ایک مکمل متاثرکرنے والی تصویر سا۔۔۔زاویوں میں منقسم اجلے راستوں کی طرح سا۔۔۔۔ اس نے بیٹھتے ہی سب پر ایک اچٹتی ہوئی نظرڈالی اور بغیرکوئی تمہید باندھے اپنی بات شروع کر دی!!!
"جو ہاتھ اپنی ہی صلیب اٹھائے ہوئے ہوں۔۔۔۔ تو وہ کسی کا ہاتھ کیا تھامیں گے۔۔۔ جو آنکھیں اپنا پہلوٹھی کا خواب مرتا دیکھ لیتی ہیں، حیرت سے منجمد ہو کر بےخواب ہو جاتی ہیں۔۔۔۔۔خواب آنکھوں کے سہاگ ہوتے ہیں، خواب مر جائیں تو آنکھیں بیوہ ہو جاتی ہیں۔۔۔ اور بیواؤں کے گھر شہنائی نہیں بجا کرتی، بس مردہ خوابوں، تشنہ ادھوری خواہشوں کا ماتم ہوتا ہے۔ ایسی بیوہ آنکھوں کو احساس سے دیکھنے پر ان میں کہیں گہرائی میں بس راکھ اڑتی دکھائی دیتی ہے”
احسن بے چینی سے بولا۔۔۔۔۔” مگر جناب جب منجمد آنکھیں پگھلتی ہیں تب پاگلوں سا برستی بھی تو ہیں…. اور وہ آنسو اپنے ساتھ سب مردہ خوابوں، ناکام حسرتوں کی باقیات کو بہا لے جاتے ہیں اور روح میں نئی امید کا بیج بو دیتے ہیں۔۔۔ ان آنسوؤں کا کوئی رنگ نہیں ہوتا، پر ان کا رنگ ارد گرد کی ہر شے میں محسوس تو ہوتا ہے۔۔۔۔۔ اور صلیب کی مشقت میں مبتلا ہاتھ دعا کے لیے اٹھتے ہیں۔۔۔۔ سوالی تو ہوتے ہی ہیں؟؟؟؟”
اس نے گہری نظروں سے احسن کے ساتھ جڑ کر بیٹھی ہوئی لڑکی کو دیکھا اور اسے مخاطب کرتے ہوئے پوچھا۔۔۔۔ "پنکی۔۔۔۔ کیا تم نے کبھی اکیلے ہو جانے کا دکھ محسوس کیا ہے، بالکل اکیلے ہو جانے کا؟؟؟۔۔۔۔۔۔۔ کبھی اپنی نظروں سے گری ہو کہ جب تمھیں علم ہوا ہو کہ تمھاری حیثیت ان اشیاء سے متعین ہو گی جو آسائش کہلاتی ہیں۔۔۔ جب کہ تم جانتی بھی ہو کہ آسائشوں کی صلیب لامحدود ہے۔۔۔۔؟؟؟؟”
پنکی نے کوئی جواب نہیں دیا۔۔۔ بس منجمد آنکھوں سے اسے ایسے دیکھتی رہی جیسے وہ اپنے اندر سے اٹھتی نیلی لپٹوں سے احسن کے خواب کو بچانے کی کوشش میں آخری حد تک مصروف ہو !!!!
وہ اس کی نگاہوں میں سے یک لخت گزر گیا۔۔۔ خود کو سمیٹتے ہوئے گفتگو میں واپس آ گیا اور احسن کو مخاطب کر تے ہوئے بولا۔۔۔ـ” رہی بات امیدوں کی تو۔۔۔ یہاں بھی ایک تماشہ ہی ہے، شوہر بیوی، محبوب محبوبہ، گناہ ثواب، جنت دوزخ کا۔۔۔ ایک طرفہ تماشہ۔۔۔ اور یہ تماشہ ہر گھر میں ہو رہا ہے۔۔۔ اپنے اپنے گھروں میں ہی دیکھ لو ۔۔۔۔ اور تمھیں ہر گھر سے ایک مخصوص بو آئے گی۔۔۔۔ جوان جوڑے کے گھر سےاجلے کفن میں ملبوس پھول اوڑھے تازہ میت کی اور بوڑھے جوڑے کے گھر سے مقبروں جیسی۔۔۔۔ لاشوں اور مقبروں کی دعائیں بے معنی ہوتی ہیں۔”
اس نے جیب سے سگریٹ کی ڈبیا نکالی، ماچس کی تیلی جلائی اور پھر کچھ سوچ کر اسے پھونک مار کر بجھا دیا۔۔۔۔اور ایک مختصر سے خاموشی کے وقفے کے بعد بولا۔۔۔۔ "تم سب کبھی اپنے باپ سے پوچھنا کہ اس نے تمھاری ماں سے شادی کیوں کی؟؟؟؟۔۔۔۔۔۔۔ اور پھر اپنی ماں سے بھی یہ ہی سوال کرنا۔۔۔۔ دونوں تمھیں ایک سا جواب نہیں دے پائیں گے۔۔۔۔ یہ “ابہام“ وہ ہی ہے جو پہلوٹھی کے خواب کے مرنے کے بعد محض ہونے کی صلیب اٹھا لینے کا نتیجہ ہے۔۔۔ غور کرنے پر تم جان جاؤ گے کہ تمام تر منافقتوں کے ساتھ یوں ساتھ رھنے کی ان کے پاس کوئی وجہ نہیں۔۔۔ وہ مجبوری مذہبی، معاشرتی سے زیادہ “جبلی“ ہے۔۔۔ پر وہ اسے کچھ اور کا اور بیان کریں گے۔۔۔ اور تم میں سے جو محبت کرنے والے جوڑے کی اولاد ہیں وہ بھی “نا حاصل “ منزل کے پڑاؤ ہیں۔۔ ہاں بس پڑاؤ۔۔۔ ان لمحوں کی پیداوار ہیں جب آپ کے والدین نے ایک دوسرے کے جسم کو منزل سمجھ لیا تھا۔۔۔ یعنی انھوں نے ایک سمجھوتہ کر کے الوہی سوچ سے ناتا توڑ لیا۔۔۔ اور پھر دوسروں کے دیکھا دیکھی وہ بھی قنوطی ہو گئے۔۔۔ سچی روشنی سے الگ ہو کر جانتے بوجھتے ہوئے بھی غبی چکا چوند کے اسیر ہو گئے۔۔۔ تب ہی دیکھ لو تمھارے ماں باپ تمھیں ہر اس راستے پر جانے سے روکتے ہیں جو سوچ کی طرف جاتا ہے۔۔۔ اسی سوچ کی سولی سے وہ اپنے تئیں بچے تھے مگر مصلوبِ مصلحت ہوئے۔۔۔ تب ہی تو تمھیں سرکاری افسر، ڈاکٹر۔ انجینئر اور تاجر تو بنانا چاہتے ہیں لیکن ادیب، شاعر، مصور، صوفی، سالک یا با ہوش انسان نہیں۔۔۔ـ”
اس نے ایک قہقہہ لگایا۔۔۔ اور سگریٹ سلگا لی۔۔۔ سگریٹ کا ایک گہرا کش لگا کر وہ خود کلامی کے انداز میں بولا۔۔۔ "کاش میرے بس میں ہوتا اور میں ان کو سمجھا سکتا کہ تمھاری تلاش جہاں آ کر رک گئی تھی۔۔۔ اور جہاں تم “ مکمل خود “ کو سمجھوتے کے “گٹر“ میں پھینک آئے تھے، اس سے چند قدموں کے فاصلے پر ہی اصل زیست موجود تھی۔۔۔۔ ننگی۔۔ نو مولود۔۔۔ آزمائش کی آلائشوں سے لتھڑی ہوئی۔۔۔ اس کمینی زندگی سے بہتر جسے اب تم بے حسی سے گلی گلی، گھر گھر ایک بے رحم لا تعلقی کے ساتھ گھسیٹتے پھر رہے ہو۔ کچھ نہ ہو کر ہونے کے زعم میں مبتلا ہو۔۔۔ اس بات کو نہیں سمجھتے کہ مذہب، سماج اور تعلقات کے بارے میں بولا گیا تمھارا سچ اگلی نسلوں کے لیے سوائےایک دھوکا کے اور کچھ نہیں ہے۔”
احسن نے افسردہ ہو کر ایک ساتھ کئی سوال کیے۔۔۔ جیسے وہ خود سے ہی پوچھ رہا ہو !!!!
"تو جناب ہم کیا ہیں؟؟؟؟”
"کیوں ہیں؟؟؟؟؟ "
"اور ان سے ہی کیوں ہیں؟؟؟؟؟ "
اس نے سسکارتے ہوئے لہجے میں جواب دیا۔۔۔۔” میں، تم، ہم سب ایک بے لطف گزرا ہوا وقت ہیں۔۔۔ ایسا وقت جس کو ہمارے بڑوں نے ضائع کیا۔۔۔ تمھیں یہ اپنا مستقبل کہتے ہیں۔۔۔ پر تم ان کا مستقبل نہیں ہو، تم محض “بے ثباتی“ ہو کیوں کہ تمھارا کوئی ماضی نہیں۔۔۔ تم ان پر سزا ہو اور “سزاوار“ اترے ہو۔۔۔ جیسے ہمارے بڑے اپنے بڑوں پر اترے تھے۔۔۔۔”
اس نے ایک لمبا مجذوبانہ قہقہہ لگایا اور اپنے آنسو پونچھتے ہوئے کہا۔۔۔ـ” وہ سب سزا سے نہیں بچ سکتے کیوں کہ انھوں نے تلاش اور سوچ سے رشتہ توڑ کر سمجھوتے کا گناہ کیا۔۔۔محض خود کو زندہ رکھنے کے سمجھوتے کا گناہ۔۔۔ جب کہ اوپر والے نے تو اپنی کئی صلاحیتیں ان میں ڈال کر پھر “کن“ پھونکا تھا۔۔۔”
سارے میں ایک خاموش گیان ناچنے لگا۔۔۔۔ اور بعد کی ساعتوں نے خجالت سے آگہی کو جنم لیتے دیکھا۔۔۔ جس کی گود میں ایک اور نومولود زمانہ ہمک رہا تھا جس کے داہنے ہاتھ کی مٹھی بند تھی۔۔۔

Related posts

Leave a Comment