وہ اور وہ ۔۔۔ حامد یزدانی

وہ  اور  وہ
۔۔۔۔۔۔

’’اچھا، تم ہی بتائو مجھے ۔۔۔۔ جو نہیں ہے یا نہیں ہوا، کیا وہ ہو بھی نہیں سکتا؟‘‘
’’بھئی، اشفاق صاحب کے افسانوں کی حدتک تو سب کچھ ہو سکتا ہے ۔۔۔کوئی نورانی بابا جی اچانک کہیں سے نمودار ہو کرجنگل میں بھٹکتے پیاسے کو ہدایت کاروح افزا پلا سکتے ہیں، ایک جیپ خود بخود سٹارٹ ہو کر اپنے مالک کے قاتل کو انجام تک پہنچا سکتی ہے ۔۔۔ مگر حقیقت اور افسانہ دو مختلف چیزیں ہیں‘‘۔
’’کچھ ایسی مختلف بھی نہیں ہیں کہ جن کے بُعد کو، جن کے فاصلے کو قطبین کی دوری سے تعبیر کیا جا سکے۔ یارمیرے، یہ بتاؤ یہ خوشی، یہ غم، یہ اداسی، یہ طمانیت ۔۔۔کیا یہ سب حقیقتیں نہیں ہیں؟‘‘
’’میں نے کب کہا یہ حقیقتیں نہیں‘‘۔
تو کیا تم پانچ یا ساڑھے پانچ حسیّات کے ذریعے یا کسی لیبارٹری میں پرکھ کر ان کا وجود ثابت کر سکتے ہو؟‘‘
’’یہ تو مسلّمہ چیزیں ہیں، ہمیشہ سے انسان کے ساتھ موجود ہیں انہیں ثابت کرنے کی کیا ضرورت ہے؟‘‘
’’امکان بھی کیا ایک مسلّمہ حقیقت نہیں؟ یہ بھی تو انسان کے ساتھ ہمیشہ سے ہی ہے۔ وہ جو تمہارا سوئٹزر لینڈ والا دوست ایزی کہا کرتا ہے: ’’یار، اِنج ہویا تے نئیں پر ہو سکدا اے‘‘ مجھے تو اس کی اس بات میں بھی دم لگتا ہے‘‘۔
’’لیکن جنابِ من! ایزی کے خیالات اور امکانات کی فلسفیانہ اُڑان محض بغیر چابی دروازہ کھولنے اور بغیر ٹکٹ سفر کرنے کی چکمہ بازی تک ہی محدود رہی، تم تو جانے کہاں کہاں کی ہانکنے لگتے ہو اور وہ بھی بیسویں صدی کے آخری عشرے کے کنارے پر جہاں خلائی ادارے عام آدمی کو بھی سیّاروں کی سیر کروانے کو پر تول رہے ہیں۔ کسی بھی ملک کے ٹکٹ کی طرح چاند یا مریخ کے ٹکٹ کٹاؤ اور نکل جاؤ چھٹیاں منانے اور اگر کہیں نہ جانے کا موڈ ہوتو ٹکٹ کاؤنٹر پر جا کر کہو: ’اک ٹکٹ کہِیں نہ جانے کا‘ ‘‘۔
’’آہا، ’ اک ٹکٹ کہِیں نہ جانے کا‘۔۔۔خوب! خوب ! جاہدالحق کی بنگالی نظم کا مصرع ۔۔۔ میں سمجھ گیا۔‘‘
’’ بنگالی نظم کا مصرع نہیں ، مصرع کا ترجمہ!‘‘
’’ وہی مطلب تھا میرا ۔۔۔ ہے تو شاعری ہی ناں!‘‘
’’چلو ٹھیک ہے اب شاعری کی بات چل نکلی تو یہ بات بھی ہو ہی جائے کہ شاعری ہو یا سائنس سب خیالات اورامکانات ہی کا کھیل ہے۔ نہیں کیا؟سوچوتو یہ خلا وغیرہ میں جانے کی حقیقت بھی توکچھ عرصہ پہلے تک ایک امکان ہی تھی، ہے کہ نہیں؟ کچھ لوگ تو اب بھی اس سب خلائی تسخیر کو امریکی ڈرامہ قرار دیتے ہیں۔یاد نہیں چاہ جھنڈی والی مسجد میں وہ جو مستری صاحب آیا کرتے تھے نماز پڑھنے، وہ اردو سپیکنگ، جنھوں نے یہ موٹے موٹے شیشوں کی کنّی کھاتی ہوئی عینک لگائی ہوتی تھی، کہاں مانتے تھے وہ یہ سب۔ ایک روز عشا کے بعد زبیری اور میں کتنی دیر بیٹھے انہیں یہ سمجھانے کی کوشش کرتے رہے کہ مستری صاحب دنیا چاند نہیں اُس سے بھی آگے تک چلی گئی ہے مگر ان کی آنکھیں واضح انکار کرتی رہیں۔پھرکہنے لگے:’یہ سب فلم سٹوڈیو میں تیار کی گئی تسخیر ہے برخوردارو۔ سب کیمرہ ٹرِک ہے ۔تم تو پڑھے لکھے لڑکے ہو، اتنا نہیں سمجھتے۔میں آٹھ تک پڑھا ہوں، یہ سب سمجھتا ہوں اور آٹھ بھی مزنگ ہائی سکول میں پڑھی ہیں، کسی انگلش میڈیم سکول میں نہیں‘۔مستری صاحب مرتے مر گئے مگر ۔۔۔‘‘
’’یار، چھوڑو یہ سب۔ تمہیں کتنی بار سمجھایا ہے کہ اشفاق صاحب اور ان جیسے لوگوں کی کہانیاں مت پڑھا کرو ۔ یہ تمہیں کہِیں کا نہیں چھوڑیں گی۔ اب ان کی کہانیوں کے بابے تمہاری گفتگو میں مستری صاحب کے روپ میں ظاہر ہونے لگے ہیں۔ لگتا ہے تمہیں اشفاقیہ ہو گیا ۔۔۔ اپنا علاج کرواؤ ۔۔۔‘‘
’’لیکن میں نے کب کہا کہ میں مستری صاحب کی باتوں سے اتفاق کرتا ہوں۔ وہ تو ایک وقوع پزیر ہو چکے واقعے کو تسلیم کرنے کو تیار نہ تھے، میں تو جو ابھی نہیں ہُوا اس کو بھی حقیقت مانے بیٹھا ہوں۔۔۔‘‘

’’آپ بیٹھے نہیں، چل رہے ہیں اور وہ بھی دسمبر کی فریزنگ سردی میں کولون کی اس سڑک پر جو سیدھی شہربون جاتی ہے۔ اب واپس جانے کا ارادہ ہے یا بون پہنچ کر ہی دم لیجئے گا؟‘‘ طاہرہ کا مداخلتی جملہ ہمیں واپس اس شام رنگ چوراہے میں لا پٹختاہے ورنہ امجد اور میں تو دریائے رائن کے احساسِ قرب کی روانی میں ہی جانے اور کتنی دُور نکل جاتے۔
مجھے پاکستان سے جرمنی آئے ایک سال ہوا ہے اور میری بیگم طاہرہ تو ابھی چھ ماہ پہلے پہنچی ہے۔ امجد یہاں کوئی پانچ سال سے ہے۔شہر کولون سے پہلے وہ برلن میں تھا اپنی جرمن بیگم کے ساتھ۔ اور برلن آنے سے پہلے وہ لاہور میں تھا، مزنگ کے قلعہ مراد بخش میں جہاں ہم رات گئے تک آوارہ گردی کرتے اور پھرایک دوسرے کو اس کے گھر پہنچانے کے چکروں میں صبح کر دیتے۔ اکٹھے کالج جاتے، اکٹھے واپس آتے،اکٹھے مال اور پھرلارنس گارڈن کی سیر کرتے،اکٹھے موسیقی سنتے، اکٹھے تصویری نمائشیں دیکھتے،اکٹھے مشاعرے پڑھتے، اکٹھے کھانا کھاتے ۔۔۔ بس عشق الگ الگ کرتے تھے ہم ۔۔۔ اُسے غالباً آرٹ اور جرمنی سے عشق تھا اور مجھے۔۔۔۔! خیر، چھوڑئیے اس بات کو۔ آپ کو اس میں کیا دل چسپی ہو سکتی ہے بھلا ۔ ہاں تو پھر امجد جرمنی چلا گیا یا چلا آیا، بی اے کے نتیجے سے پہلے ہی۔یوں ہمارا رابطہ خطوں تک یا پھر اس کی پاکستان آمد پر دو ایک روز کی ملاقاتوں کے سلسلے تک محدود ہو کر رہ گیا۔
اب مدت بعد ہم پھر یوں اکٹھے ہوئے ہیں۔ دن بھر وائس آف جرمنی کی اردو سروس میں اور شام کو شہربھر میں۔ ہمارے ہاں، اس کے اپارٹمنٹ میں، ناز بہن اور شاہ صاحب کی طرف، جاہد الحق اور انصاری صاحب کے ساتھ، کلوڈوِش پلاٹس کے تُرک ریستوران میں، مرغابیوں والے پارک میں، رائن کے کنارے، کیتھڈرل ڈوم کے تاریخی پہلو میں، نوئے مارٹ کے فٹ پاتھ پر اطالوی ٹھیلے والے سے بُھنے ہوئے چیسٹ نٹس کھاتے ہوئے، نسیم خان صاحب کے ہمراہ، گروسری سٹورز میں اور ۔۔۔ اور کہاں کہاں نہیں۔ امجد ان دنوں اکیلا ہے۔ اس کی بیگم بوجوہ دوسرے شہر میں رہتی ہیں۔سو دفتر کے بعد بھی اس سے ملاقات کا کافی وقت مل جاتا ہے۔ دفتر میں دن بھر کا ساتھ رہتا ہے مگربیشتروقت رسمی اور نِیم رسمی باتوں، میٹنگز، ورکنگ لنچ اور روزانہ کی نشریات کی نذر ہو جاتا ہے۔سو، اس کمی کو ہم شام کی چائے پر یا رات کے کھانے کے بعد پورا کرتے ہیں۔ بقول طاہرہ چائے کے دو گھڑے ختم کرنے کے بعد۔ اس کا اشارہ چائے کے ان فربہ پیالوں کی جانب ہوتا ہے جن سے نبرد آزما ہونے کے بعدسیر یا کہہ لیجئے کولون گردی کا آغاز ہوتا ہے۔جس کے دوران میں ہمارے ذہن اور قدم کہاں سے کہاں تک پہنچ جاتے ہیں کچھ اندازہ نہیں ہوتا۔ طاہرہ ساتھ نہ ہو تو جانے کب لوٹیں ہم اس غیر طے شدہ بے سمت مہم سے۔ مگر وہ اپنی حقیقت پسندانہ رائے سے ہمیں واپس آج میں لے آتی ہے۔ ارد گرد کے ماحول کا احساس دلا دیتی ہے۔ کبھی کبھی وقت اور موسم سے مطابقت اور کبھی کبھی غیر مطابقت والی بات بھی کر دیتی ہے۔
’’آئس کریم کھائی جائے ؟۔۔۔کیا خیال ہے؟‘‘۔ ریمبرانت کی پینٹنگ ’’دی نائٹ واچ‘‘ کے تاریخی سفر پر بحث کا راستہ کاٹتے ہوئے وہ اچانک خواہش کا اظہار کردیتی ہے۔
’’آئس کریم؟ یہاں پہلے ہی ہماری قلفی جم رہی ہے اورمحترمہ اس سردی میں ٹھنڈی آئس کریم کی تجویز پیش کر رہی ہیں۔بھئی، سبحان اللہ‘‘۔ میں دستانوں میں چھپے ہاتھ پھر سے جیکٹ کی جیبوں میں اُڑستے ہوئے کہتا ہوں۔
’’سردی کو سردی ہی سے کاٹا جا سکتا ہے‘‘۔ وہ مسکرا کر کہتی ہے۔
’’اوہو، علاج بالمثل! بھئی واہ، ہومیو پیتھک سوچ ۔ ویسے بھی یہ طرزِ علاج بنیادی طور پر جرمن ہی ہے‘‘ ۔ امجد اس کی تائید کرتا ہے۔
’’اب کیا ہومیو پیتھک آئس کریم بھی ملنے لگی ہے مارکیٹ میں؟‘‘۔ میں ہار ماننے والا نہیں۔
’’دیکھئے، اِس وقت فوری طور پر اگر کافی ملے گی تو وہ خود کار وینڈنگ مشین سے ملے گی جو کچھ تو پہلے ہی ٹھنڈی ہو گی اور کچھ مزید ٹھنڈا اسے یہ سردی کردے گی۔ تو ایسی یخ اور بک بکی کافی پینے سے اچھا نہیں کہ واقعی ٹھنڈی آئس کریم سے لطف اٹھایا جائے!‘‘ طاہرہ کا استدلال اور امجد کی تائید۔
’’ایسا کرتے ہیں، میں اور طاہرہ آئس کریم لے لیتے ہیں اور پھر گھر چل کر تمہیں گرما گرم کافی پیش کرتے ہیں ۔ آج ہی نیا پیکٹ لایا ہوں لِڈل مارکیٹ سے ۔۔۔ اورپھر نئے ٹی وی پر ٹوائی لائٹ زون دیکھیں گے‘‘۔ امجد کی تجویز۔
’’ایک شرط پر چلیں گے آپ کے گھر امجد بھائی ۔۔۔‘‘ طاہرہ کہنا شروع کرتی ہے۔
’’ مشروط کافی! نہیں چلے گی، نہیں چلے گی‘‘۔ میں نعرہ لگاتا ہوں۔
’’اگر وعدہ کریں کہ وہاں جا کر آپ لوگ اپنی یہ بے تکی تکرار پھر سے شروع نہیں کردیں گے‘‘۔ طاہرہ میرے احتجاجی نعرے کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنی بات مکمل کرتی ہے۔
’’چلو وہاں پہنچ کر نہ سہی راستے میں تو کر سکتے ہیں ناں؟‘‘ میں باز آنے والا نہیں۔طاہرہ بے طرح مجھے گھورتی ہے۔
امجد مسکرا تے ہوئے گنگنانے لگتا ہے ’’ساون کے جھولے پڑے، تم چلے آؤ ۔۔۔ تم چلے آؤ‘‘
پھر گیت کی نغمگی اس کی سریلی سِیٹی کے روپ میں سردی سے الجھنے لگتی ہے۔
’’یارحامد، اس گیت میں تم نے اپنی طرف سےبھی کچھ بول جوڑ دیئے تھے، یاد ہے؟۔‘‘ وہ کہتا ہے۔
ہاں، کچھ تھے تو بول۔ اب یاد نہیں۔ بہت مدت ہوگئی یار۔ یہ بتاؤ تم اتنا تیز تیز کیوں چل رہے ہو، گھر ہی تو جانا ہے۔‘‘ میں کہتا ہوں۔
’’کہا ناں، ٹی وی پر ٹوائی لائٹ زون آنے والا ہے، میرا پسندیدہ شو۔‘‘ امجد ہوا میں لہراتے اپنے دھاری دار مفلر کو گردن کے گرد لپیٹتے ہوئے جواب دیتا ہے۔
’’ آج تو ایلفرڈ ہچکاک کی ’ دی برڈز‘ دیکھنے کا ارادہ تھا‘‘ میں گویا منمناتا ہوں۔
’’ نہیں یار، آج نہیں۔ میں یہ شو مِس نہیں کر سکتا۔‘‘ امجد کا کورا جواب۔
’’کیوں پسند ہے بھلا تمہیں یہ شو؟‘‘ میرا دھیماا استفسار۔
’’یہ کیا سوال ہوا! بھئی مجھے اچھا لگتا ہے۔ دل چسپ ہے۔ پراسرار اور حیرت انگیز واقعات اور بدن میں جھرجھری لاتا سسپنس، سائنس فکشن اور ۔۔۔ اور ایک مختلف رُخ ۔۔۔‘‘ امجد کہتا ہے۔
’’ایسے ہی کسی رُخ کی میں بات کرتا ہوں تو تم اُسے روحانیات اور اشفاقیات کہہ کر ہنسی میں اُڑا دیتے ہو۔ تمہارے پسندیدہ شو میں بھی کیا عجیب و غریب امکانات کے نقش نہیں ملتے؟‘‘۔ جانے میں گِلہ کررہا ہوں یا سوال!
’’پھر وہی فکشن، سنسنی، عجیب و غریب رُخ ۔۔۔ باز نہیں آئیں گے آپ!‘‘
طاہرہ کی خفگی کے ہمراہ ہم امجد کے گھر کی طرف بڑھ رہے ہیں۔
’’فکشن کا مطلب جانتے ہو ناں تم!‘‘چند لمحوں کی خاموشی کے بعد امجد بولتاہے۔
’’ہاں، جانتا ہوں لیکن کیا مفروضے ہی سائنسی حقائق کی بنیاد نہیں ٹھہرتے؟ کتنی ہی ایجادات ہیں جن کا ذکر کسی پرانی کہانی یا ناول میں موجود ہے۔کل کا ایک خیال آج کی حقیقت ہے۔ ماضی میں جو ناممکن لگتا تھا، اب عین ممکن ہے۔ ہے کہ نہیں؟جارج آرول کا ناول ۱۹۸۴ء دیکھ لو۔۔۔ اور پھر ایلون ٹافلر کی فیوچر شاک اور تھرڈ ویو ۔۔۔ اور ۔۔۔‘‘ میں کہتا چلا جاتا ہوں۔
’’ ان کتابوں میں ایسی بے سروپائی کہیں بھی نہیں۔ وہ کتابیں تو۔۔۔۔۔‘‘
’’پھر لے بیٹھے وہی قضیہ، چھوڑیں اسے کوئی اور بات کرتے ہیں ۔۔۔ بہن بھائیوں کی کھٹی میٹھی بات، لاہور کی بارشوں کی بات، پاکستانی ڈراموں کی بات، باغِ جناح کے گول گپوں کی بات۔۔۔‘‘ طاہرہ امجد کی بات کاٹ دیتی ہے۔
’’اور باغِ جناح کے کوّوں کی بات۔۔۔‘‘ میں ہنس کر لقمہ دیتا ہوں۔’’امجد کو ویسے بھی لاہور کے کو ّے جرمنی کے کو ّوں سے کہِیں زیادہ خوب رُو بلکہ چمکیلے لگتے ہیں۔ یاد نہیں تمہیں؟ دو سال پہلے جب لاہور آیا تھاتو انسانوں سے زیادہ تواس نے اُن کو ّوں کی تصویریں لی تھیں۔۔۔‘‘
’’اِس کی کیا بات کرتی ہو طاہرہ‘‘ ۔ امجد کہتا ہے ۔’’تمہارے آنے سے پہلے کی بات ہے، ایک دن انصاری صاحب کے ساتھ ان کے گھر گیا۔تم جانتی ہو وہ یہاں اکیلے رہتے ہیں۔خیر، وہ دروازہ کھولنے کے لیے چابی گھما نے لگے تویہ حضرت دروازے کی گھنٹی دبا نے لگے ۔۔۔ انہوں نے کہا، کیا کر رہے ہوبھئی میں تو یہاں ہوں تمہارے ساتھ، گھنٹی پر اندر سے دروازہ کون کھولے گا؟تو کہنے لگا کہ دباکر دیکھنے میں کیا حرج ہے، ہوسکتا ہے کوئی کھول ہی دے دروازہ اندر سے۔ اب انصاری صاحب بے چارے حیرت سے تکے جارہے ہیں کبھی اسے اور کبھی دروازے کو ۔۔۔ تو یہ تو بعض اوقات اس درجے کو پہنچ جاتا ہے کہ ایزی کے چکر باز فلسفے کو بھی پیچھے چھوڑ جاتا ہے ۔۔۔‘‘
’’ایزی کی بات نہیں یار،تمہیں کیا اشفاق صاحب کا وہ افسانہ بھول گیا ۔۔۔ارے تم نے ہی تو مجھے پڑھنے کو دیا تھا ۔۔۔جس میں ایک شخص بیک وقت ایک سے زیادہ جگہوں پر موجود ہوتا ہے، یاد نہیں؟‘‘ میں معصومیت سے کہتا ہوں۔
’’او خدایا! پھر وہی ان ہونی باتیں ۔۔۔ توبہ ہے!‘‘ طاہرہ کی خفگی کا گراف اوپر جارہاہے۔
امجد کا گھر اب سامنے ہے۔
اس سے پہلے کہ وہ جیب سے چابی نکالے میں تیزی سے آگے بڑھ کر دروازے کی گھنٹی دبا دیتا ہوں۔ ٹرِن، ٹرِن، ٹرِن۔۔۔
’’کون؟‘‘ اندر سے آواز آتی ہے۔
’’ہم۔۔۔اور کون !؟
اور کھٹ سے دروازہ کھل جاتاہے۔
سامنے امجد کھڑا ہے۔۔۔ دہلیز پر ۔۔۔ ہمارے استقبال کو ۔۔۔حسبِ معمول اپنی خوب صورت ــ’’زیرِ مونچھ‘‘ مسکان کے ساتھ۔
’’آؤ، آؤ۔ آجاؤ اندر جلدی سے ۔ کافی تیار ہو رہی ہے، گرما گرم۔ آج ہی نیا پیکٹ لایا ہوں لِڈل مارکیٹ سے ۔۔۔ ٹوائی لائٹ زون بھی بس شروع ہونے کو ہے۔ اب آ بھی چکو، یار۔‘‘

میں قدم دہلیز سے اندر رکھتے ہوئے  مُڑ کر طاہرہ کو دیکھتا ہوں۔۔۔
اس کی حیراں حیراں آنکھیں گلی کی نیم تاریکی میں جانے کِسے ڈھونڈ رہی ہیں۔!

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Related posts

Leave a Comment