"شہر خالی ، جادہ خالی”
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تحریر ،تحقیق اور شاعری کا اُردو مفہوم : رحمان حفیظ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اوریجنل گلوکار : امیر جان صبوری
ری مکس گائکہ : نگارہ خالووا
موسیقی و پیشکش : مشعل یوسفی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حالیہ عالمی وبائی شٹ ڈاؤن کے دوران اچانک ایک نغمہ بڑے پیمانے پر سناجانے لگا ہے جس کے بول ہیں ” شہر خالی، جادہ خالی” در اصل یہ نظمیہ کلام کوئی ڈیڑھ دو عشرے پہلے افغانی گلوکار امیر جان صبوری نے لکھا اور گایا تھا لیکن حالیہ مقبول ورژن ری-مکس(Remix) ہے جسے نو جوان تاجک گلوکارہ نگارہ خالووا نے گایا اور اس کے ڈائریکٹر مشعل یوسفی ہیں۔ یہ گانا مشعل پروڈکشن کے آفیشل یوٹیوب چینل پر ملاحظہ کیا جا سکتا ہے۔
امیرجان صبوری ایک شاعر، موسیقار اور گائک ہے، جس کا تعلق افغانستان کے صوبہ ہرات سے ہے ۔ امیر جان کی بھاری بھر کم آواز موسیقی کے شائقین میں بہت مقبول رہی ہے۔ اس کی مادری زبان افغان فارسی یعنی ‘دری’ ہے اور یہ کلام اسی زبان میں تخلیق کیا گیا۔1980ء کے بعد افغانستان میں حالات کی خرابی نے فنکاروں کو بھی در بدر کر دیا۔ فنون لطیفہ کی سرپرستی بالکل ختم ہو گئی اور گلو کار، مصور اور سنگ تراش دنیا کے مختلف ملکوں کو ہجرت کر گئے۔ نو جوان امیر جان صبوری کو بھی گھو متے پھرتےکینیڈا تک جانا پڑا۔ تاہم اس نے 2005ء میں واپس افغانستان آکر سیٹل ہونے کی کوشش کی جو کامیاب نہیں ہو پائی۔ کہا جاتا ہے کہ وہ انہی نا مساعد حالات کے باعث اب وسط ایشائی ریاستوں میں مقیم ہے۔
اس کا یہ گیت ” شہر خالی، جادہ خالی” کئی دوسرے مختلف ملکوں میں بھی کاپی کیا گیا ۔ پاکستان میں تقریبا ایک عشرہ پہلے رحیم شاہ نے اس کا ایک ورژن متعارف کروایا جو کوئی خاص توجہ نہیں حاصل کر سکا۔انہی دنوں یہ گیت ایک نو خیز تاجک بچی نے گایا جو اَب معروف گلوکارہ نگارہ خالووا کے طور پر جانی جاتی ہے۔ اس کی گائیکی امیر جان کو بہت پسندآئی، اس کی آواز جادوئی اور لب و لہجہ دلکش اور مصرعوں کی ادائی بھی اعلیٰ ہوتی ہے۔ اسے ایک بین الاقوامی اور کئی قومی ایوارڈز بھی دئیے جا چکے ہیں۔ چنانچہ یہ گیت نگارہ خالووا کے حوالے سے اور معروف ہوتا گیا تاہم پاکستان، افغانستان ، ایران اور وسط ایشیائی ریاستوں میں اس وقت جاری ‘ کورونا وبا’ کے دوران سڑکوں اور بازاروں کی ویرانی سے اس گیت کی مقبولیت میں اچانک مزید اضافہ ہوتا جا رہا ہے ۔
یہ گیت فنی اعتبار سے کوئی اہم نہیں لگتا لیکن موجودہ حالات کے ساتھ اس کی مطابقت اتنی حقیقی ہے کہ یہ فورا ً سننے والے کے دل پر اثر کرتا ہے ۔ بعض سطور سے اندازہ ہوتا ہے کہ جیسے یہ گیت ان دنوں ہی لکھا گیا ہو گا۔ خاص طور پر اس کایہ حصہ دل دہلا دینےوالا ہے:
( مفہوم)
"اس دنیا کی بد قسمتی کا اندازہ کیجئے جہاں اپنے اپنوں سے ڈرنے لگے ہیں ، کلیاں کھلنے سے خوفزدہ ہیں، عاشق اپنے محبوب کی آواز سے بھی خائف ہے، سازندے ساز کو ہاتھ لگانے سے خوف کھاتے ہیں اور مسافر آسان راستوں پر بھی چلنے سے گریزاں ہیں۔”
آپ اندزہ لگا سکتے ہیں کرونا کی وبا کے باعث آئسولیشن اور قرنطینہ نے جس طرح گلی محلوں ،سیر گاہوں اور بازاروں کو آناً فاناً خالی کر دیا ہے اس سے جو نئی صورتحال پیدا ہوئی ہے وہ شاید تاریخ میں پہلے کبھی نہ دیکھی گئی ہو۔ اس وقت بیک وقت دنیا کے تمام ملکوں میں لاک ڈائون یا اس سے ملتی جلتی کیفیت ملاحظہ کی جا سکتی ہے جس نے دنیا بھر میں ویرانی کے ایک شدید تاثر کو جنم دیا ہے اور یہ گیت اس صورتحال کی بڑی حد تک ترجمانی کرتا ہے۔ یہاں سوال یہ پیدا ہو تا ہے کہ امیر جان صبوری نے اس صورتحال کی پیش بینی کیسے کی اور اسے کیسے منظوم کر لیا! اس کا اندازہ یوں لگایا جا سکتا ہے کہ صبوری کی سرزمین جنگ کی ہلاکتوں کے باعث عرصے سے ویرانی کے مناظر دکھاتی رہی ہے اور ایک حساس تخلیق اس صورتِ حال سے کیسے صرفِ نظر کرسکتا تھا چنانچہ صبوری سے یہ نظم تشکیل پا گئی جو صدا پا کر ایک دلکش گیت کی شکل میں ڈھل کر مشہور و مقبول ہو گئی۔
ذیل میں یہ فارسی گیت ، اردو مفہہوم کے ساتھ مکمل درج کیا جاتا ہے، ساتھ ہی اس کا مقبول وڈیو لنک بھی شامل کر دیا گیاہے:
شہر خالی، جادّہ خالی، کوچہ خالی، خانہ خالی
جام خالی، سفرہ خالی، ساغر و پیمانہ خالی
کوچ کردہ ، دستہ دستہ ، آشنایان، عندلیبان
باغ خالی، باغچہ خالی، شاخہ خالی، لانہ خالی
"ویرانی کا عالم دیکھئے کہ شہر، رستے، گلیاں اور گھر کہیں بھی کوئی دکھائی نہیں دیتا۔ میخانے میں جام و مینا پڑ ے ہیں مگر میز کرسی خالی ہیں۔با ہر دیکھو تو ہماری عزیز بلبلیں یہاں سے کوچ کر گئی ہیں ۔ کوئی شاخ اور کوئی گھونسلہ آباد نہیں رہا۔”
وائے از دنیا کہ یار از یار می ترسد
غنچہ ہای تشنہ از گلزار می ترسد
عاشق از آوازہ دیدار می ترسد
پنجہ خنیاگران از تار می ترسد
شہ سوار از جادہ ہموار می ترسد
این طبیب از دیدن بیمار می ترسد
"اس دنیا کی بد قسمتی کا اندازہ کیجئے جہاں اپنے اپنوں سے ڈرنے لگے ہیں ، کلیاں کھلنے سے خوفزدہ ہیں، عاشق اپنے محبوب کی آواز سے بھی خائف ہے، سازندے ساز کو ہاتھ لگانے سے خوف کھاتے ہیں اور مسافر آسان راستوں پر بھی چلنے سے گریزاں ہیں۔”
سازہا بشکست و دردِ شاعران از حد گذشت
سال ہائے انتظاری بر من و تو برگذشت
آشنا ناآشنا شد
تا بلی گفتم بلا شد
"فضا میں سُر بکھیرنے والے ساز ٹوٹ پھوٹ چکے ، شاعر درد کی شدت سے بے حس ہو گئے ۔ انتظار نے وہ کیفیت کر دی ہے کہ ہم اپنائیت اور غیریت سے بے گانہ ہو کر رہ گئے ہیں۔”
گریہ کردم، نالہ کردم، حلقہ بر ہر در زدم
سنگ سنگِ کلبہ ویرانہ را بر سر زدم
آب از آبی نجنبید
خفتہ در خوابی نجنبید
"میں نے بہت آہ و فغاں کی ، ایک ایک در کھٹکھٹانا بھی میرے کام نہ آیا۔ پھر میں نے بستی چھوڑ دی، صحراؤں کی ریت اپنے سر میں ڈالی اور دیوانہ ہو کر شانت ہوگیا۔ لیکن میری اس حالت کی خبر کس کو ہو گی اور شاید خود مجھے بھی نہیں کہ جیسے پانی کو بھی اپنی گہرائی کااندازہ نہیں ہوتا۔”
چشمہ ہا خشکیدہ و دریا خستگی را دم گرفت
آسمان افسانہ ما را بہ دستِ کم گرفت
جام ہا جوشی ندارد، عشق آغوشی ندارد
بر من و بر نالہ ہایم، ہیچ کس گوشی ندارد
"اب تو چشمے پانی سے خالی ہو چکے ۔دریا تھک ہار کر سوگئے ،کوئی امید نہیں بچی حتیٰ کہ آسمان نے بھی میری حالت کو فراموش کر دیا ۔ نشے بےاثر ہوگئے ہیں اور سینوں میں بھڑکتی عشق کی آگ بجھتی جا رہی ہے۔”
بازآ تا کاروانِ رفتہ باز آید
بازآ تا دلبرانِ ناز ناز آید
بازآ تا مطرب و آہنگ و ساز آید
کاکل افشانم نگارِ دل نواز آید
بازآ تا بر در حافظ اندازیم
گل بیفشانیم و می در ساغر اندازیم
"اے جانے والو ، لوٹ آؤ تاکہ کارواں پھر سےتازہ دم ہو کر رواں دواں ہوں ۔ وہ وقت پلٹ آئے جس میں عشق محبوباؤں کے ناز اٹھایا کرتے ہیں، آجائو آنے والو تاکہ ساز و آواز کی مضطربانہ محفلیں پھر سے سج جائیں، آ جائو کہ ہم حافظ کے اتباع میں مہرجاناں پر گل پاشی کر کے اس کا استقبال کریں ، میخانے آباد کریں اور زندگی کوپھر سے پر رونق بنا دیں۔”
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نوٹ : اس مضمون کی تیاری میں انٹر نیٹ کے ذرائع استعمال کئے گئے جن میں گوگل، وکی پیڈیا، یو ٹیوب ،مشعل پروڈکشنز آفیشل چینل ، فیس بک، پیپل پل ، لرکس ٹرانسلیٹ اور اوزودی ڈا ٹ آرگ شامل ہیں۔
گیت کا لنک :