نعت گوئی اور بہاول پور ۔۔۔۔۔۔۔ محمد نعمان فاروقی

نعت گوئی اور بہاول پور
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بقول مولانا محمد علی جوہرؔ:

بے مایہ سہی لیکن شاید وہ بُلا بھیجیں
بھیجی ہیں درودوں کی کچھ ہم نے بھی سوغاتیں

ہم مدحتِ رسولﷺ کے بارے میں غور کرتے ہیں تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ سب سے پہلے خود مالکِ کائنات نے قرآن پاک میں محمد مصطفیٰ احمد مجتبیٰ ﷺ کی مدح سرائی اور شان بیان کی ہے۔ اپنی اور ملائکہ کی طرف سے حضور پُرنور سرورِ کائنات ﷺ پر درود بھیجنے کی تصدیق کے ساتھ ساتھ مومنین کو حکم دیا ہے کہ وہ بھی محبوبِ ربِ کائنات ﷺ پر درودوسلام بھیجیں۔
عہدِ رسالت میں شاعرِ رسول حضرت حسانؓ بن ثابت اور حضرت کعبؓ بن زہیر اور پہلی صدی ہجری میں حضرت امام زین العابدین مدحِ رسول کے حوالے سے اہم نام ہیں۔بعض روایات میں حضرت ابوبکر صدیقؓ کی زبان سے ادا کیے گئے نعتیہ اشعار بھی ملتے ہیں۔امام زین العابدینؒ کی نعت کے چند اشعار ملاحظہ ہوں:

اِنْ نِّلتِ یَا رِیْحَ الصَّبَا یَوْمًا اِلٰی عَرْضِ الْحَرَمْ
بَلِّغْ سَلاَمِیْ رَوْضَۃً فِیْہَا النَّبِیُّ الْمُحْتَرَمْ

مَنْ ذَاتُہ‘ نُوْرُ الْھُدٰی، مَنْ وَّجْھُہ‘ شَمْسُ الضُّحٰی
مَنْ خَدُّہ‘ بَدْرُ الدُّجٰی، مَنْ کَفُّہ‘ بَحْرُ الْھِمَمْ

ترجمہ:
بادِ صبا تیرا گزر گر ہو کبھی سوئے حرم
پہنچا سلامِ شوق تو پیشِ نبیِ محترم

جو ذات ہے نور الھدٰی، چہرہ ہے جو شمس الضحٰی
عارض ہے جو بدرالدجیٰ، دستِ عطا بحرِ کرم

اُردو زبان کے ابتدائی ادوار میں نعت اظہار کی واحد صنف کے طور پر نظر نہیں آتی بلکہ صرف روایت نبھانے کے لیے اور حصولِ ثواب کی خاطر مجموعہ کلام میں شامل کر دی جاتی تھیں۔
بیسویں صدی میں نعت کا رجحان پھیلا اور بہت سے شعراء کرام نے اس صنف میں طبع آزمائی کر کے حبِ رسول ﷺ کا اظہار کیا۔ اُردو کے مشہور نعت گو شعراءمیں حالیؔ، امیرؔمینائی، محسن کاکوروی، احمد رضا خاںبریلویؒ، علامہ اقبالؒ، مولانامحمد علی جوہرؔ، مولانا ظفر علی خاںؒ، بہزاد لکھنوی، وحید الدین سلیمؔ پانی پتی، حفیظؔ جالندھری، پروفیسر اقبال عظیم، حفیظ تائبؔ، احسان دانشؔ، ماہر القادری، نعیم صدیقی، شورشؔ کاشمیری، صاحبزادہ نصیر الدین نصیرؔ گولڑوی، مظفرؔوارثی، تابشؔ الوری، گوہر ملسیانی، یوسف ظفر اور خورشید ناظرؔ وغیرہ اہم نام ہیں جنھوں نے اس صنف میں اپنے فن کے جوہر دکھائے اور حضورﷺ سے اپنی عقیدت و محبت کا اظہار کیا۔
برصغیر پاک وہند کی دوسری بڑی اسلامی ریاست ’’دارالسرور بہاول پور‘‘ ہمیشہ سے علم وحکمت کا گہوارہ رہی ہے اور اس کی وجہ ہر عہد میں حکمرانانِ ریاست کی علم دوستی اور علماء، فضلاء اور اہلِ علم وفن کی قدردانی اور سرپرستی ہے۔ بہاول پور اور اُردو زبان کا رشتہ قدیم ہے ۔ 1834ء  میں برطانوی حکومت سے معاہدے کے بعد جز وی طور پر اور 1857؁ء کی جنگِ آزادی کے نتیجے میں دہلی، لکھنؤ اور دیگر ہندوستانی علاقوں سے بسلسلۂ ملازمت بہاول پور ہجرت کر کے آنے والوں کے اثرات کی بدولت کُلی طور پر بہاول پور میں اُردو نے فارسی کی جگہ سرکاری اور دفتری ز بان کی حیثیت اختیار کر لی اور اُردو شاعری کا مذاق عام ہوا۔افسوس کہ بہاول پور کی ادبی تاریخ محفوظ نہیں اور اٹھارویں صدی کے آخر سے انیسویں صدی تک مولوی محمد اعظم (مصنف ’’جواہرِ عباسیہ‘‘ اور ’’حلیۃ النبیؐ‘‘)، منشی نصیر الدین (میرمنشی ریاست بہاول پور) اور مخدوم حامد محمد شمس الدین گیلانی (سجادہ نشین درگاہِ عالیہ اوچ شریف) وغیرہ کے علاوہ کچھ آثار ملتے ہیں۔
انیسویں صدی کے آخر سے قیام ِ پاکستان تک بہاول پور میں اُردو نعت گوئی کے حوالے سے شاعرِ ہفت زبان حضرت خواجہ غلام فریدؒ، حضرت نصیر الدین خرمؔ بہاول پوری، دبیر الملک عزیز الرحمٰن عزیر ؔبہاول پوری، حکیم عبدالحق شوقؔ، میر افضل حسن افضلؔ، میر واجد علی زارؔ بلگرامی، ارشاد نبی رازؔ، جلال الدین لُبیدؔ بہاول پوری، حفیظ الرحمٰن حفیظؔ بہاول پوری، معین الدین حاویؔ چشتی، حکیم محی الدین شانؔ، نور الزماں اوجؔ، حیات میرٹھی، دلشاد کلانچوی ،عبد القادر جوہرؔ عباسی، محسن نقوی اور علی احمد رفعتؔ اردو نعت گوئی کے حوالے سے نمایاں نام ہیں۔
نعت گوئی کے محرکات میں مسلمانوں کے اس عقیدے کو اولیت حاصل ہے کہ حضور پُرنور رحمۃ اللعالمین حضرت محمد مصطفی ﷺ کی محبت جزوِ ایمان ہے اور حضور پاک ﷺ پر درودوسلام بھیجنا جہاں کارِ ثواب اور باعثِ نجات ہے وہاں حکمِ خداوندی کی بجاآوری بھی۔ اس کے علاوہ آپﷺ کی سیرت پاک سے لوگوں کو روشناس کرانا اور اُن کی تقلید کی ترغیب دینا اہم مقاصد ہیں۔ ’’باخدا دیوانہ باشد با محمدؐ ہوشیار‘‘ کے مصداق نعت گوئی میں جذبہ کے ساتھ ساتھ احترام کو بھی ملحوظِ خاطر رکھنا پڑتا ہے۔ مدحتِ رسولﷺ کرتے ہوئے احتیاط کا دامن تھامنا پڑتا ہے۔ ذرا سی بے احتیاطی ایمان کے ضائع ہونے کا سبب بن سکتی ہے۔
سابقہ ریاست ’’بہاول پور ‘‘ اسلامی اقدار کے فروغ، امن اور رواداری کے لیے مشہور تھی۔ مسلمان عیدین کے ساتھ ساتھ عیدِ میلاد اور شبِ معراج اسلامی جوش وخروش سے مناتے تھے۔ درودوسلام اور نعت خوانی کے علاوہ سرائیکی، اُردو اور فارسی میں مولود خوانی کا رواج عام تھا۔ ان محافل میں والیانِ ریاست، وزراء، رؤوسا، ریاستی ملازمین اور عوام الناس بِلا تخصیص مسلک شرکت کرتے تھے۔ آخری فرمانروا نواب الحاج جنرل سر صادق محمد خاں عباسی پنجم کے عہد میں یہ محفل باقاعدگی سے شہر کے وسط میں واقع سفید بُراق سے جامع مسجد الصادق میں منعقد ہوتی تھی اور اس میں ریاست بھر کے شعرا اور مقررین اپنی عقیدت کا اظہار کرتے تھے۔ اس محفل میں نواب صاحب بنفسِ نفیس شریک ہوتے تھے۔
سرائیکی مولود کے حوالے سے احمد پور شرقیہ کے نابینا شاعر حافظ محمد بیگ مغل کا نام مشہور ہے۔ ان کا عہد نواب بہاول خاں ثالث بالخیر سے نواب صادق محمد رابع (صبح صادق) کے دورِ حکمرانی تک ہے۔ ان کے مولود اس قدر عام ہوئے کہ آج تک مساجد میں ختم تراویح کے موقع پر حاجیوں کی روانگی اور وطن واپسی کے مواقع پر پڑھے جاتے ہیں۔ میرے ہم عمر اور مجھ سے بڑی عمر کے بہاولپور کے باسیوں کو یاد ہو گا کہ بہاول پور میں دو مولود خواں حافظ محمد بیگ مغل کا لکھا ہوا ایک مولود پڑھتے ہوئے جنازے سے آگے آگے چلتے تھے:

درود پڑھ کے پکاراں دم دم
رسول اکرمؐ رسول اکرمؐ

سڈاں میں تیکوں حبیب رب دا
نبی ؐ ہیں افضل وسیلہ سب دا

ونجاوو ڈکھڑے مٹاوو کُل غم
رسولِ اکرمؐ رسولِ اکرمؐ

تیرھویں صدی ہجری (انیسویں صدی عیسوی) کے وسط تک بہاول پور میں اُردو عام ہو چکی تھی۔ اس دور میں بعض ایسے حضرات کا نام سامنے آتا ہے جن کا تعلق اسی علاقے سے تھا اور ان کی زبان سرائیکی تھی لیکن انھوں نے اُردو کو اظہارِ خیالات وجذبات کا ذریعہ بنایا۔ مثلاً قبلۂ عالم خواجہ نور محمد مہارویؒ کے ایک خادم نور احمد تھے جو ماڑی شوق شاہ (ضلع بہاول نگر) کے رہنے والے تھے اور بسملؔ تخلص کرتے تھے۔ یہ نعتیہ اشعار ان سے منسوب کیے جاتے ہیں:

اے خدا! مجھ کو دکھا دے روضۂ شاہِ عرب
اس تمنائے زیارت میں ہوا ہوں جاں بہ لب

آستانِ روضۂ عالی پہ آنکھوں کو ملوں
سر جھکا کر یوں کہوں یا سید اعلیٰ نسب

اسی طرح موضع لال سوہانرا کے قاضی فقیر محمد کی ایک نعت ملتی ہے جو حضرت صاحب السِیَر حضرت خواجہ محکم الدین سیرانی ؒ کے مرید تھے۔ حضرت خواجہ غلام فریدؒ کے جدامجد اور قبلۂ عالم خواجہ نور محمد مہارویؒ کے خلیفہ قاضی عاقل محمد نے بھی نعتیہ اشعار کہے ہیں ۔ وہ جوگیؔ تخلص کرتے تھے۔قاضی عاقل محمد کے صاحبزادے خواجہ احمدعلی، ان کے صاحبزادے خواجہ تاج محمود، خواجہ صاحب کے والد محترم خواجہ خدا بخشؒ اور بڑے بھائی خواجہ غلام فخرالدین اوحدیؔ نے بھی اردو اور فارسی میں نعتیہ اشعار کہے ہیں۔
شاعرِ ہفت زباں حضرت خواجہ غلام فریدؒ کے سرائیکی کلام کو شہرتِ عام اور بقائے دوام عطا ہوا۔ سرائیکی کے ساتھ ساتھ اُردو نعت گوئی میں سنگِ میل کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان کا اُردو دیوان حمدونعت سے شروع ہوتا ہے۔
اسی دور کی ایک نمایاں علمی شخصیت عزیز الدین عزیزؔ ساعت ساز بہاول پوری ہیں جو آخری شاہی خطیب حضرت قاضی عظیم الدین علویؒ (متوفی 1986؁ء) کے دادا تھے۔ انھوں نے امام بوصیریؒ کے مشہورِ زمانہ قصیدہ ’’بُردہ شریف‘‘ کا فارسی، اُردو اور سرائیکی میں منظوم ترجمہ کر کے 1884؁ء میں مطبع حسینی بمبئی سے ’’نظم الورع‘‘ کے عنوان سے شائع کرایا۔ نظم الورع کا ایک بند ملاحظہ ہو:

خورشیدِ معرفت نے دیا جگ کو جگمگا
سارا زمانہ روشن اِسی نور سے ہوا
فضل و شرف اُسی کو خدا نے عجب دیا
سب مرسلوں سے خلق میں ، خلقت میں ہے سِوا
علم وکرم میں کوئی نہ مثل اس نبی کے تھا

مرزا اشرف گورگانی نے بھی خطۂ بہاول پور میں نعت گوئی کے سلسلے کو آگے بڑھایا۔ان کا تعلق مغل شاہی خانوادے سے تھا۔بہاول پور میں صادق ایجرٹن کالج میں پروفیسر رہے۔ نامور مؤرخ، مترجم، اور صحافی دبیر الملک الحاج عزیز الرحمٰن عزیزؔ بہاولپوری ڈسٹرکٹ جج کے عہدۂ جلیلہ سے ریٹائر ہوئے۔ بہاول پور میں پہلا مطبع ’’عزیز المطابع‘‘ کے نام سے قائم کیا جس کا افتتاح مدیرِ مخزن سر عبدالقادر (چیف جسٹس بہاول پور ہائی کورٹ) نے کیا تھا۔سلسلہء عزیزیہ کے تحت سینکٹروں کتب شائع کرائیں۔ دیوانِ فرید ؒ کا پہلا اُردو ترجمہ کیا۔ اُردو اور فارسی کے ضخیم دیوان ’’گلستانِ عزیز‘‘ اور ’’بوستانِ عزیز‘‘کے علاوہ ایک مجموعہ ’’نعتِ عزیز‘‘ کے نام سے شائع ہوا جس میں درودشریف، مناجات اور نعتیں شامل ہیں۔ (بزمِ عزیزکے تحت باقاعدگی سے مشاعروں کا اہتمام کیا جا تا تھا جس کی کئی بار صدارت سر عبد القادر مرحوم نے کی)۔ عزیزؔ سچے عاشقِ رسولﷺ تھے اور عشق کی سرمستی میں نعتیں لکھتے تھے:

نہ ہوں مجھ سے کبھی رنجیدہ خاطر سرورِ عالم

مجھے پروا نہیں دشمن اگر ساری خدائی ہو

عزیزؔ کے ہونہار فرزند ہمہ جہت ادیب، شاعر، سیرت نگار، مؤرخ، صحافی ، مترجم اور 40 سے زائد کتابوں کے مصنف مولانا حفیظ الرحمٰن حفیظؔ بہاولپوری کا نام محتاجِ تعارف نہیں۔حفیظ الرحمٰن حفیظؔ پہلے شخص ہیں جنھوں نے قرآن پاک کا سرائیکی زبان میں مکمل ترجمہ کیا جو ۱۹۵۲؁ء میں شائع ہوا۔ اُردو جامع انسائیکلوپیڈیا کے مطابق:

’’محمد حفیظ الرحمٰن حفیظؔ: قرآن پاک کے سرائیکی مترجم۔ پ: بہاول پور، قرآن پاک کا مکمل سرائیکی ترجمہ لکھا جو ۱۹۵۲؁ء زیورِ طبع عزیز المطابع بہاولپور سے شائع ہوا‘‘۔

حفیظؔ اپنے ہم عصروں میں نعت گوئی اور تاریخی تحقیق کے اعتبار سے نمایاں مقام رکھتے ہیں۔ انھیں اس حوالے سے اولیت کی تخصیص حاصل ہے کہ بہاول پور سے تعلق رکھنے والے پہلے شاعر ہیں جن کا نعتیہ مجموعہ ’’گلدستہ‘‘ کے عنوان سے شائع ہوا۔ حفیظؔ کی نعتوں میں سرورِ کون ومکاں کی مدح سرائی کے ساتھ ساتھ ان اشیا، مقامات اور اشخاص سے بھی عقیدت ظاہر ہوتی ہے جن سے رسول پاکﷺ کی کوئی نسبت رہی ہو۔ حفیظؔ کے لیے دیارِ مدینہ کی ہر ایک چیز محترم اور گراں مایہ ہے۔ حج کے موقع پر مدینہ میں کہے گئے ان بے ساختہ اشعار میں بے تحاشا اثر انگیزی پائی جاتی ہے:

کہوں کیا کہ کیا ہیں مدینے کی گلیاں
محبت کی جا ہیں مدینے کی گلیاں

طبیعت کو ہوتا ہے آرام حاصل
سماں خُلد کا ہیں مدینے کی گلیاں

اپریل 1943؁ء میں حکومتِ بہاول پور کی جانب سے کُل ہند مشاعرہ کا اہتمام کیا گیا جس کی چار نشستیں ہوئیں۔ برصغیر کے طو ل وعرض سے نامور شعراء کرام نے اپنا کلام سنایا۔ اس مشاعرے کے انعقاد اور 1947؁ء میں تقسیمِ ہند کے بعد یہاں کی ادبی فضا میں مزید تحریک پیدا ہوئی۔ قیام پاکستان کے بعد بہاول پور سے تعلق رکھنے والے شعرا کے نعتیہ مجموعہ ہائے کلام شائع ہونے لگے۔
مسعود حسن شہابؔ دہلوی کے نظم وغزل کے مجموعوں ’’نقوشِ شہاب‘‘ اور ’’گل و سنگ‘‘ کے علاوہ ’’موجِ نور‘‘ کے نام سے نعتیہ مجموعہ شائع ہوا۔ افسرالاطباء حکیم عبد الرشید کی اہلیہ بیگم نصرت رشید (جو معروف ادیبہ اور شاعرہ بشریٰ رحمٰن کی والدہ تھیں) بہاول پور کی پہلی نعت گو صاحبِ دیوان شاعرہ کی حیثیت سے جانی جاتی ہیں۔ ’’دعائے نیم شبی‘‘ اور ’’آہِ سحر گاہی‘‘ کے نام سے ان کے دو نعتیہ مجموعے شائع ہوئے۔
بہاول پور کے نعتیہ مجموعوں میں’’موجِ نور‘‘ از شہاب دہلوی، ’’قوسِ عقیدت‘‘ از پروفیسر سہیل اختر، ’’سرکارِ دوعالَم‘‘ از تابشؔ الوری، ’’موجِ عشق‘‘ از خالد بخاری، ’’فخرِ دوعالم‘‘ از عبدالودود سرو رؔ سہارنپوری، ’’نعت سرا‘‘ از طاہر چشتی، ’’متاعِ شوق‘‘، ’’مظہرِ نور‘‘ اور ’’جذباتِ شوق‘‘ از گوہر ؔملسیانی ، ’’نورِ برحق‘‘ اور ’’سید السادات‘‘ از رشید عثمانی وغیرہ کو ملک گیر شہرت حاصل ہوئی۔ اس کے علاوہ بزرگ شاعر، ادیب اور محقق محترم خورشید ناظرؔ نے ’’بلغ العلیٰ بکمالہٖ‘‘ کے عنوان سے ضخیم منظوم سیرت پاکﷺ تحریر کی ہے۔ان کے حبِ نبی سے سرشارنعتیہ اشعار ملاحظہ ہوں:

کوئی غم کیوں رہے، آنکھ نم کیوں رہے
آپؐ ملجامرے، آپؐ آقا مرے

سابق ایم پی اے سید تابشؔ الوری بہاول پور کے نامور سیاست دان، صحافی، بلند پایہ ادیب ، شاعر اور بے مثل خطیب ہیں۔ ان کا غیر منقوط مجموعۂ نعت ’’سرکارِ دوعالَم‘‘ نبی پاک ﷺ سے دلی عقیدت کا بے مثل اظہار ہے:

مکاں در مکاں ہے ہوائے محمدؐ
صدی در صدی ہے صدائے محمدؐ

دو عالم کے سارے مسائل کا حل ہے
صدائے محمدؐ، ادائے محمدؐ

پروفیسرڈاکٹر نواز کاوش صادق ایجرٹن کالج سے بطورسربراہ شعبۂ اُردو ریٹائر ہوئے ہیں۔ ان کے نعتیہ اشعار ملاحظہ ہوں:

دل کی حسرت کب ہو پوری عمر ڈھلی ہے رفتہ رفتہ
آنکھ کی خواہش گنبدِ خضرا، غم کا مداوا کعبہ کعبہ

پروفیسر فاروق فیصلؔ نے بہت خوبصورت نعتیں لکھی ہیں۔ ان کے عقیدت بھرے کلام اور خوش الحانی نے انھیں نعتیہ محافل میں نمایاں مقام عطا کیاہے۔ ’’جادۂ کہکشاں‘‘ کے اس مسافر کے لیے دعا ہے کہ عقیدتوں کا سفر جاری و ساری رہے:

سبز گنبد پہ جب نظر ہو گی
شام ہو گی وہیں سحر ہو گی

جو بھی نعتِ رسول کہتا ہے
فکر اس کی بلند تر ہو گی

فرزندِ شہاب پروفیسر مشہودؔ حسن رضوی کی نعتوں کا محور اور مرکزی موضوع درِ حضورِ پاکﷺ پر حاضری ہے۔ انھوں نے اس مضمون کو بار بار مختلف انداز اور مؤثر لہجوں میں ادا کیا ہے۔ وہ خلوصِ دل اور پُراثر انداز میں نعت لکھتے ہیں:

بسا ہے خیالوں میں کوئے مدینہ
مرے دل میں ہے آرزوئے مدینہ

ہو شام و سحر لب پہ نامِ محمدؐ
رہے رات دن گفتگوئے مدینہ

یہ رُوداد مشہودکس کو سناؤں
مدینے کی فرقت رلاتی ہے مجھ کو

اپنی شاعری میں روایت اور جدیدیت کا حسین امتزاج رکھنے والے کنور امتیاز احمد کا قیام زمانۂ طالب علمی میں ایک عرصہ تک بہاولپور میں رہااور اب بسلسلۂ روزگار لاہور میں مقیم ہیں ۔ اپنے شعری مجموعہ’’گزرے دنوں کے خواب میں‘‘ کا آغاز اس نعت سے کرتے ہیں:

 دل ہاتھ میں اور دُعا تِری یاد
ہم جیسوں کا حوصلہ تِری یاد

کچھ یوں بھی خموش ہو گیا ہوں
کرتی ہے مکالمہ تِری یاد

کنور امتیازاحمد اپنی زندگی کی تمام تر کٹھن راہوںمیں حضور پر نورﷺ کے خیال ہی کو اپنا رہبر ورہنما تصور کرتے ہیں:

جیسے صحرا کو بچا رکھتا ہے دریا کا خیال
سبز رکھتا ہے مجھے گنبدِ خضریٰ کا خیال

زندگی لاکھ ہو صحرا میں سفر کی صورت
راہ دکھلاتا ہے اِک نقشِ کفِ پا کا خیال

نام وَر فزیشن پروفیسر ڈاکٹر منیر اظہر چوہدری انتہائی خوبصورت پیرائے میں حضور نبی کریم ﷺ سے اظہارِ عقیدت اور ان کی رحمت کا ذکر کچھ اس طرح کرتے ہیں:

آپؐ کا ذکر کڑی دھوپ میں بھی سایہ ہے
ابرِر حمت کا سدا سر پہ میرے سایہ ہے

عشق کی راہ پہ چلنے کا مزہ یوں ہے کہ پھر
یہ نہیں سوچنا، کیا کھویا ہے، کیا پایا ہے

نوجوان شاعر پروفیسر ذیشان اطہر کی نعت سچے جذبات کی عکاس ہے:

سرکارؐ کی تعریف کے اشعارمری نعت
سچے مرے جذبات کا اظہار مری نعت

زمیں کو پھر ایسا غم نہ ہو گاجو اُن کے جانے سے ہے مسلسل
جو اُن کی آمد سے ہے فلک پر، نہ ہو گا جشنِ وصال ایسا
وہ جاگتے، رات بھر نہ سوتے، وہ اپنی امت کے غم میں روتے
خیال ہو تو خیال ایسا، ملال ہو تو ملال ایسا

قیامِ پاکستان سے دورِحاضر تک کے بہاول پور سے تعلق رکھنے والے معروف نعت گو شعراء میں ظہور نظر، علی احمد رفعت، حیات میرٹھی، نقوی احمدپوری، ریاض رحمانی، سیدآلِ احمد، عابد صدیق، اشتیاق راہی، خورشید ناظر، ڈاکٹر قاسم جلالؔ، منور جمیل، سرور ناز، ڈاکٹرنصر اللہ ناصرؔ، مجیب الرحمٰن خان، غالبؔ اقبال صدیقی، رشید عثمانی، قیوم سرکش، احمد علی مخمورؔ ، پروفیسر مطلوب علی زیدی، اسلم عباسی، جمشید اقبال، عاصم ثقلین درانی، افضل خان اور افتخار علی وغیرہ کے علاوہ بیسیوں نام ایسے ہیں جنھوں نے نعت گوئی میں طبع آزمائی کی ہے۔
’’دارالسرور بہاول پور‘‘ کے آخری فرمانروا محسنِ پاکستان نواب جنرل سر صادق محمد خاں عباسی پنجم کے حوالے سے یہ بات خالی از دلچسپی نہ ہو گی کہ اپنے پہلے سفرِ حجاز (۱۹۳۱؁ء) پر روانگی سے قبل ایک کتابچہ ’’رسولِ صادق‘‘ کے عنوان سے تحریر کر کے شائع کرایا اور روضۂ رسولﷺ پر حاضری کے موقع پر ایک انگریزی نعت کی صورت میں نذرانۂ عقیدت بحضور سرورِ کونینﷺ پیش کیا جسے EULOGIUM کا عنوان دیا۔ یہ انگریزی نعت مع اُردو ترجمہ مولانا حفیظ الرحمٰن حفیظؔ بہاولپوری نے ۱۹۳۳؁ء میں شائع ہونے والے اپنے سفرنامہ ’’سفرنامۂ حجاز‘‘ کے آخر میں شائع کی ہے۔اس نعت کا منظوم اُردو ترجمہ پروفیسر فاروق فیصلؔ نے کیا ہے۔
اپنی گفتگو کو سمیٹتے ہوئے یہ عرض کرنا ضروری خیال کرتا ہوں کہ جو شخص نعتِ نبی ﷺ کو اپنا شِعار بنا لے، وہ امر ہو جاتا ہے۔ اسے کسی آبِ حیات کی ضرورت نہیں رہتی۔ بقول حفیظ الرحمٰن حفیظؔ بہاول پوری:

نعتِ نبی ؐ میں مجھ کو بقائے دوام ہے
کس واسطے میں خواہشِ آبِ بقا کروں

Related posts

Leave a Comment