وبا کے دنوں میں اختلافات ۔۔۔ نوید صادق

میرا پاکستان
۔۔۔۔۔۔

وَبا کے دِنوں میں اختلافات
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

گذشتہ روز ڈاکٹر توصیف تبسم صاحب کو فون کیا کہ ان کی خیریت دریافت کی جائے، باتوں باتوں میں کرونا وائرس سے پھیلنے والی بین الاقوامی وبا کا ذکر آیا تو توصیف صاحب بولے: خدا ہم سے ناراض ہو گیا ہے۔ میں نے کہا: جی، ایسا ہی لگ رہا ہے ۔ فرمانے لگے: دیکھیں، اگر میں آپ سے ناراض ہو جاؤں تو آپ کو اپنے گھر نہیں آنے دوں گا۔ بات سمجھ میں آتی ہے۔ خدا ہم سے واقعی ناراض ہے اور اس ناراضی کی حد یہاں تک آن پہنچی ہے کہ اب اُس نے ہم پر اپنے گھر کا راستہ اور دروازہ تک بھی بند کر دیا ہے۔

کم و بیش پوری دنیا اس وبا کی لپیٹ میں ہے۔ اللہ تعالیٰ سورۃ ھود میں فرماتے ہیں:’’اور ہم نے ان پر ظلم نہیں کیا لیکن درحقیقت انھوں نے ہی خود اپنی جانوں پر ظلم کیا۔‘‘ ہم نے واقعی اپنی جانوں پر بہت ظلم کیا ہے۔ ہم ۔۔۔ اب اس ہم میں صرف ہم مسلمان نہیں، ساری دنیا کے انسان شامل ہیں۔ ہم ۔۔۔ گننے بیٹھیں تو شاید گن بھی نہ پائیں کہ ہم نے کیا کیا کچھ ایسا کر رکھا ہے جو اللہ تعالیٰ کو ناپسند ہے۔ چلیے تھوڑی دیر کو غیر مسلموں کو چھوڑ کر صرف مسلمانوں کے کارناموں پر نظر دوڑائیں ۔۔۔ ہم نے اپنی جانوں پر بہت ظلم ڈھائے لیکن سمجھ ہم شاید اب بھی نہیں پا رہے۔ اور جب سمجھ نہیں پا رہے تو درستی کے عمل کی طرف کس طور رخ کر پائیں گے۔اپنے پاکستان کے حالات ہی کو لے لیجیے، ایک سے بڑھ کر ایک ایسا کارنامہ ملے گا جو اللہ بزرگ و برتر کو ناپسند ہے۔اس کی جھلکیاں کثرت سے اب بھی ۔۔۔ وبا کے دنوں میں بھی دیکھنے کو مل رہی ہیں۔

پاکستان میں اتفاق کے معاملے ہی کو لے لیجیے۔ ہم اس عذابِ شدید میں بھی ایک دوسرے کو نیچا ثابت کرنے کی کوششوں میں لگے ہیں۔ عوام کو تو تھوڑی دیر کو ایک طرف کیجیے، بڑوں یعنی لیڈروں ۔۔۔ بلکہ لیڈروں کو بھی ایک طرف رکھ کر ان لوگوں کے معاملات پر نظر دوڑائیں جن کے ہاتھوں میں اس وقت ملک کی باگ ڈور ہے۔ یہ لوگ اتنے کرب ناک حالات میں بھی ایک دوسرے کو نیچا ثابت کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ سندھ حکومت نے سب سے پہلے صوبے میں حفاظتی تدابیر کی طرف دھیان دیا، وفاق کی طرف سے تنقید کی گئی۔ سندھ حکومت صوبے میں لاک ڈاؤن کا اعلان کرنے جا رہی تھی کہ وزیراعظم صاحب نے لاک ڈاؤن کے خلاف بولنا شروع کر دیا۔ وزیراعظم محترم اس موضوع پر اب تک  ۔۔۔ کوئی کام کی بات کی ہو تو یاد رہے کہ کتنی بار خطاب کر چکے ہیں۔ ان کے رویے سے لگتا ہے کہ وہ کوئی فیصلہ کرتے وقت کسی سے کوئی مشورہ نہیں کرتے، بس اپنی سی ہانکتے چلے جاتے ہیں۔ لیکن ان کے اس اعلان کے بعد کہ لاک ڈاؤن نہیں کیا جائے گا، ملک کے دوسرے صوبوں میں بھی لاک ڈاؤن کا اعلان ہو گیا۔ وہ اب بھی اپنی اسی ضد پر قائم ہیں کہ نہیں ۔۔۔ یوں ، یوں ۔۔۔ تو پھر یوں ہی سہی، صوبائی حکومتیں اپنے اپنے طور کام سے لگی ہوئی ہیں تو وفاق کی آنکھیں ۔۔۔ خان صاحب پھر چندہ مانگتے نظر آ رہے ہیں۔ دیار غیر میں مقیم پاکستانیوں سے ڈالر مانگ رہے ہیں۔ یا اللہ! ہم جائیں تو کہاں جائیں۔ ڈیم بنانا ہے تو عوام چندہ دیں، وبا پھیلی ہے تو عوام چندہ دیں۔ ہماری تنخواہوں سے کاٹا جانے والا ٹیکس، کاروباری حضرات سے وصول کیا جانے والا ٹیکس، بیرون ملک سے آنے والی امداد ۔۔۔ ورلڈ بینک، ڈبلیو ایچ او وغیرہ وغیرہ۔ چلیں پہلے یہ تو بتائیں کہ وہ جو پیسے ڈیم کے لیے اکٹھے کیے گئے تھے وہ کہاں ہیں؟ ڈیم کی تعمیر کہاں تک پہنچی؟ اور اگر وہ یوں ہی وفاقی خزانے میں پڑے ہیں، کسی نے اب تک اُڑا نہیں لیے تو اس وبا سے نپٹنے کے لیے اس رقم کو استعمال میں کیوں کر نہیں لایا جا سکتا۔ ہمارا مسئلہ ہمیشہ سے یہی رہا ہے کہ ہاتھ پھیلانے میں دیر نہیں کرتے۔ اگر فوری طور پر ڈیم کی تعمیر کے لیے جمع کی گئی رقم موجودہ حالات میں استعمال میں لے آئی جائے تو کون سی آفت آ جائے گی۔ اگر مبینہ طور پر سوشل سیکیورٹی اور لائف انشورنس کی بھاری رقوم پر ہاتھ صاف کیا جا سکتا ہے، یہاں تک کہ سرکاری خزانے میں پڑی زکوٰۃ تک بڑے لوگوں کے مفاد میں مصرف میں لائی جا سکتی ہے تو ڈیم فنڈ کیوں نہیں، اگر ہڑپ نہ کر لیا گیا ہو تو ۔۔۔ اگر قوم نے اُس وقت ہچکچاہٹ کا مظاہرہ نہیں کیا تو اس وبا کے ٹل چکنے کے بعد پیسے پھر سے اکٹھے ہو جائیں گے۔ اس پر ستم یہ کہ اپوزیشن والے تو ساتھ چلنے کو تیار ہیں، وزیراعظم محترم کسی کو خاطر میں نہیں لا رہے۔ وہ تو لگتا ہے ۔۔۔!

سول ایوی ایشن اتھارٹی نے پاکستان کے تمام ایئر پورٹس پر بین الاقوامی پروازوں کی بحالی کا اعلان کیا، عوام ابھی حیران پریشان تھے کہ یہ کیا ۔۔۔؟ کیا تمام خطرے ٹل گئے؟ کہ اسی اثناء میں نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ کی طرف سے نوٹیفیکیشن سامنے آ گیا کہ بین الاقوامی پروازیں بحال نہیں کی جائیں گی۔ سوال یہ ہے کہ صوبوں میں روزانہ کی بنیاد پر میٹنگز ہو رہی ہیں۔ وفاق میں بھی یہی ۔۔۔ وزرائے اعلیٰ کا کہنا ہے کہ وہ خود تمام معاملات کو دیکھ رہے ہیں، وزیراعظم صاحب کا کہنا ہے کہ خود مانیٹرنگ کر رہے ہیں، اگر یہ سب درست مان لیا جائے تو سول ایوی ایشن اتھارٹی اور نیشنل ڈیزاسٹر مینجمینٹ میں اتنا بڑا اختلاف کاہے کو؟ کیا سول ایوی ایشن والوں نے اتنا بڑا فیصلہ کرنے سے پہلے کسی سے نہیں پوچھا۔اللہ کرے یہ معاملہ طول نہ پکڑے اور کھینچا تانی کی سی کوئی صورت نہ بنے کہ ہم ان حالات میں ایسی کسی بدمزگی کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ اسی طور پہلے چمن کا بارڈر بند کیا گیا، پھر کھولا گیا اور اس کے بعد پھر بند کر دیا گیا۔

چین سے کچھ سامان کراچی پہنچا تو اس کی تقسیم کے مسئلے پر بھی کھینچا تانی شروع ہو گئی۔ پانچ لاکھ ماسکس میں سے دو لاکھ سندھ میں رکھ لیے گئے اور باقی تین لاکھ دوسرے صوبوں کے لیے بھیج دیے گئے۔ اس مسئلے پر تو ٹیلی ویژن پر ہونے والے ایک مناظرہ نما پروگرام میں مرتضیٰ وہاب اور ڈاکٹر شہباز گل ایک دوسرے سے الجھتے بھی ملے۔ چین سے مزید امداد آئی ہے، اللہ کرے سب مرحلے بخیر و عافیت طے ہو جائیں۔ اور پورا ملک حقیقی معنوں میں ایک پیج پر آ جائے۔

لاہور میں لاک ڈاؤن کی صورت حال کچھ یوں ہے کہ بعض علاقوں سے یہ خبریں بھی سامنے آئیں کہ بڑی سڑکوں پر تو سب ٹھیک ہے لیکن گلی کوچوں میں بچے کرکٹ کھیلتے بھی پائے جا رہے ہیں۔ یہاں حکومت سے زیادہ ان والدین کا قصور زیادہ بنتا ہے جو معاملہ کی سنگینی کو سمجھ نہیں پا رہے۔ پاکستان میں بھی باقی دنیا کی طرح کرونا وائرس کی وبا تیزی سے پھیل رہی ہے لیکن والدین ۔۔۔ اللہ رحم کرے ہم سب پر۔ دنیا میں جاری صورت حال پر ڈاکٹر یونس خیال کی ایک فکر انگیز نظم ’’خدائے برتر!‘‘ ملاحظہ فرمائیے:

خدائے برتر!
یہ کیاہواہے
کہ تیرے نائب کی بستیوں میں
عجیب کہرام سامچاہے؟
سبھی گھروں میں چھپے ہوئے ہیں
ڈرے ہوئے ایک دوسرے سے
یہ سوچتے ہیں
گھروں میں بیٹھے توبھوک ہم سب کو مار دے گی
گلی میں نکلے تو
وینٹی لیٹر نہیں ملے گا

خدائے برتر!
یہ تیرے نائب کے
علم وفن کی
ترقیوں کے عروج کی ساری داستانیں
ہوا ہوئی ہیں
سبھی کتابیں، علوم سارے
کہاں گئے ہیں؟
عجیب سا قحط پڑگیاہے
ہماری گلیوں میں
بھوک رقصاں ہے
موت رقصاں

خدائے برتر!
مرے مقدرکا وینٹی لیٹر
اسے عطاکر
جواپنے گھرمیں
پڑاہواہے
جوموت سے جنگ لڑتے لڑتے
جوان بیٹی کاسوچتاہے
تو میرے حصے کے باقی لقمے
انھیں عطا کر
کہ جن کی مائیں
یہ سوچتی ہیں
کہ بھوک اتری تو
ان کے بچوں کاکیابنے گا؟

اپنے اپنے گریبانوں میں جھانکیے اور سچ سچ بتائیے کیا ان حالات میں ہمیں اسی طور نہیں سوچنا چاہیے! شاید اسی طور ہم اللہ بزرگ و برتر کی ناراضی کم کر پائیں۔ اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
روزنامہ  دن

۳۰ مارچ ۲۰۲۰ء

Related posts

Leave a Comment