کورونا وائرس اور ہم ۔۔۔ نوید صادق

میرا پاکستان
۔۔۔۔۔۔۔

کورونا وائرس اور ہم
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

رات کے گیارہ بجے دھیان آیا کہ صبح کا ناشتہ ۔۔۔ لیکن وزیر اعلی پنجاب نے تین دن کے لیے گھروں سے بلا ضرورت نہ نکلنے کی اپیل کی ہے ۔۔۔ کیا کیا جائے۔ لیکن وزیراعظم محترم تو روز یہی کہتے نظر آتے ہیں کہ ڈرنا نہیں، ۔۔۔ یہ مجھے بار بار وزیراعظم پر غصہ کیوں آنے لگتا ہے ۔۔۔تھوڑا غور کریں تو کہتے تو خان صاحب ٹھیک ہی ہیں کہ ڈرنا نہیں، لڑنا ہے۔ ہمیں واقعی لڑنا ہے، ڈرنا نہیں۔ لیکن اس بار لڑائی ایک نادیدہ دشمن سے ہے۔ ناشتے کا سامان کہیں بیچ میں رہ چلا تھا کہ میں ہمت باندھ کر بحریہ ٹاؤن کے لیے نکل پڑا ۔۔۔سڑکیں سنسان، کہیں کہیں کوئی گاڑی، وہ بھی رفتار سے معلوم ہو رہا تھا کہ خوف ۔۔۔ ایک نادیدہ دشمن کا خوف ۔۔۔لڑنا ہے تو سامنے ۔۔۔ لیکن بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے ۔۔۔ یہاں تو بلی نظر ہی نہیں آ رہی، گھنٹی تک بات پہنچے تو کیسے پہنچے ۔۔۔ خیر! خدا کا نام لے کر ایک میڈیکل سٹور کے سامنے گاڑی روکی کہ چلو کچھ دوائیں ہی لے لیں، بوقتِ ضرورت ۔۔۔ پینا ڈول شارٹ ہے، صرف دو پتے لے لیں، اس سے زیادہ نہیں، الرجی کی صورت بھی تو نکل سکتی ہے، چلیے ریجیکس بھی دے دیں، ریجکس بھی شارٹ ہے۔ یہ کیا ۔۔۔ اب کیا کیا جائے۔ دوسرے سے تیسرے میڈیکل سٹور ۔۔۔ اور پھر یہ دونوں دوائیں تھوڑی تھوڑی مل ہی گئیں ۔۔۔ لیکن میں تو ناشتے کا سامان لینے نکلا تھا ۔۔۔ اتنا رش، سڑک پر ۔۔۔ یہ لوگ تمیز سے گاڑی نہیں چلا سکتے ۔۔۔ خدا جانے یہ لوگ کب سمجھیں گے، کب سدھریں گے ۔۔۔ یہ باتیں دھیان کے پٹ پر دستکیں دینے لگے۔ سچ ہے اکیلا آدمی کیا ہے؟ ہمارے شہروں کی رونق تو لوگ ہی ہیں، لیکن میں یہ سب کیوں سوچ رہا ہوں۔ شاید سڑکوں پر بچھی ویرانی ایک دن پہلے کے مناظر کی بازیافت ۔۔۔ بیکریاں کھلی ہیں، سامان مل رہا ہے، چلیے کچھ دن کا سامان لے لیتے ہیں، لیکن سامان وافر مقدار میں تو پڑا دکھائی نہیں دیتا، اگر میں زیادہ سامان لے گیا، تو باقی لوگ کیا کریں گے؟ مجھے دو دن سے زیادہ کا سامان نہیں لینا چاہیے، لیکن اگر یہ لاک ڈاؤن بڑھتا چلا گیا ۔۔۔ جو سب کے ساتھ ہو گا، لیکن ایسا بھی کیا ۔۔۔ وزیراعلی پنجاب کے چہرے پر اڑتی ہوائیاں ایک پل کو دھیان میں آئیں، لیکن وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کا متحرک چہرہ ، ہشاش بشاش، یہ کر ۔۔۔ وہ کر، یہ شخص واقعی لائقِ تحسین ہے کہ سب سے پہلے مسئلے کی سنگینی کا احساس اسی کو ہوا ۔۔۔ اور وہ بھٹو صاحب کا نواسہ: بلاول بھٹو زرداری ۔۔۔ سب سے پہلے یہ کہنے والا کہ ہم اپنے وزیراعظم کے ساتھ ہیں، یہ وبا ایک قومی مسئلہ ہے۔ وزیراعظم ۔۔۔ لیکن وزیراعظم صاحب تو کسی کو خاطر میں لانا مناسب ہی نہیں جانتے۔ بلاول صاحب! آپ کیوں ایسی باتیں کر رہے ہیں! یاد آیا پاکستان پیپلز پارٹی کم از کم قومی مسائل پر سب سے پہلے آگے بڑھتی ہے۔ آپ کی اعلیٰ ظرفی ہے۔ ورنہ ۔۔۔ چلیے کوئی بات نہیں، ویران سڑکیں کاٹنے کو آتی ہیں، جلدی گھر واپس چلا جائے، انسان ۔۔۔ انسان کے بغیر ادھورا ہے۔ دوسرے اسے اچھے لگیں ، نہ لگیں ۔۔۔ لیکن ان دوسروں کے بغیر نہ گھر اچھے لگتے ہیں، نہ ویران سڑکیں اور نہ سنسان بازار ۔ میرے شہر میں ہو کیا رہا ہے؟ کیا ہونے جا رہا ہے؟ اس کے معلوم کرنے کا واحد ذریعہ تو اب ٹیلی ویژن ہی رہ گیا ہے یا سوشل میڈیا ۔۔۔ لیکن یہ سوشل میڈیا ۔۔۔ لوگ بغیر سوچے سمجھے، بغیر جانے بوجھے اپنی سی ہانکتے چلے جا رہے ہیں، کوئی کسی کی بات سننے کو تیار نہیں، کبھی کبھی تو یوں لگنے لگتا ہے کہ سب کہنا چاہتے ہیں، پڑھنے سننے سے کسی کو کوئی غرض نہیں۔ افواہوں کا بازار گرم ہے۔ یوں ہو گا، یوں ۔۔۔ کیا کیا جائے۔ یہاں مایوسی اور جھوٹ کے سوا کچھ نہیں۔ ان حالات میں بھی کہ بقول کچھ لوگوں کے موت سر پر منڈلا رہی ہے ۔۔۔ لیکن ہم موت سے کیوں ڈریں: لائی حیات آئے، قضا لے چلی چلے ۔۔۔ اپنی خوشی سے آئے نہ اپنی خوشی چلے ۔۔۔ لیکن احتیاط ضروری ہے۔ احتیاط ۔۔۔ اور ہم پاکستانی، ڈر خوف ۔۔۔ لیکن سڑکیں تو ویران ہیں، بازار سنسان ۔۔۔ سوشل ڈسٹینسنگ ضروری ہے، اور ہمارے لوگ ۔۔۔ ہماری صدیوں کی روایات ۔۔۔ ہمارا مذہب، لیکن اجتہاد ۔۔۔ اب اسے اجتہاد ہی کہیے کہ علمائے کرام نے فتویٰ دے دیا، فیصلہ سنا دیا کہ اپنے آپ کو گھروں تک محدود رکھیں، اکثرمسلم ممالک کے علماء نے تو یہاں تک فتوی جاری کر دیا کہ نماز بھی گھر پر ہی پڑھ لیں، مسجد میں صرف اذان ہو گی۔ ہمارے ہاں بھی علماء کرام اسی طور کی باتیں کرتے ملے، آپس میں میل ملاپ کم کریں، ہاتھ مت ملائیں، بغل گیر نہ ہوں ۔۔۔ تنگ نظر علماء/ لوگ اس پر معترض ہیں، کچھ نے تو برملا مخالفت بھی کی لیکن کیا ہمارا مذہب ہمیں اجتہاد کا حق نہیں دیتا۔ کیا ہمارا مذہب ہمیں احتیاط کی تعلیم نہیں دیتا۔ چلیے چھوڑیے یہ سب ۔۔۔ حقوق العباد، ہمارے مذہب میں حقوق العباد پر بہت زور دیا گیا ہے۔ ایک حدیث پاک میں تو یہ بھی بتا دیا گیا کہ وبا پھوٹ نکلنے کی صورت میں اپنی بستی نہ چھوڑیں۔ اس کی کئی تعبیریں کی جا سکتی ہیں۔ لیکن سب سے بڑی تعبیر تو یہی بنتی ہے کہ جب ایک بستی میں وبا پھوٹ نکلے تو وہاں کے لوگ دوسری بستی میں اس لیے نہ جائیں کہ اس طور وبا دوسری بستی میں جا پہنچے گی۔ کیا ہم اتنا بھی نہیں کر سکتے؟ کیا ہم حقوق العباد کو دھیان میں رکھ کر دوسروں سے مصافحہ کرنا ترک نہیں کر سکتے؟ کیا ہم کچھ عرصہ کے لیے بغل گیر ہونے کی روایت سے دست برداری اختیار نہیں کر سکتے؟ کیا ہم کھانسی یا چھینک کے وقت دوسروں کو اس کے چھینٹوں سے محفوظ رکھنے کی سعی نہیں کر سکتے۔ کیا ہم اپنی حکومت کی بات نہیں مان سکتے؟ حکومت! لیکن سندھ والے اپنے وزیراعلیٰ کی مانیں گے، اور پنجاب والے اپنے وزیراعلیٰ کی ۔۔۔ جس کی پورے ملک نے ماننا ہے وہ تو لاک ڈاؤن کی طرف آنے ہی کا نہیں۔ پھر یہ سندھ ، پنجاب ، گلگت بلتستان،آزاد کشمیر ، کے پی ۔۔۔ کہیں مکمل تو کہیں جزوی لاک ڈاؤن ۔۔۔ ایسے میں ہمارے وزیراعظم مسلسل لاک ڈاؤن کے خلاف ۔۔۔ لاک ڈاؤن سے اتنا خوف کاہے کو، کرفیو کرفیو ۔۔۔ نہیں، ہرگز نہیں، اربوں کھربوں کے اعداد و شمار ۔۔۔ یہ سب کیا ہے؟ کوئی بڑا گورکھ دھندا ہے، جو تاحال نہ ہم سمجھ پا رہے ہیں اور  ۔۔۔ خود سمجھیں گے تو کسی کو سمجھا پائیں گے۔ چھوٹے میاں صاحب بھی تشریف لے آئے ہیں۔ ویسے موقع اچھا ہے، آصف زرداری، میاں شہباز شریف اور خان صاحب کو ایک جگہ بٹھا کر پوچھا تو جائے کہ ہمارے نام نہاد بڑو! مشرف صاحب کو گئے تو عرصہ گزرا، اتنے سالوں میں ہمارے ملک میں معاملاتِ صحت کی طرف ۔۔۔ بائیس کروڑ عوام کے لیے صرف پندرہ سو وینٹی لیٹر ۔۔۔ بھائی ناراض نہ ہوں، جانتا ہوں کہ بعض اعداد و شمار میں ان وینٹی لیٹرز کی تعداد پچیس سو بھی بتائی گئی ہے لیکن سوال یہ ہے کہ ان میں سے آپریشنل حالت میں کتنے ہیں، پندرہ نہیں تو سولہ سو ہوں گے ۔۔۔ سو صاحبان عالی مرتبت! ذرا یہ بتاتے جائیے کہ اب تک آپ تینوں نے کیا کیا ہے؟ ظاہر ہے یہ لوگ کیا جواب دیں گے۔ اٹھ کر اپنی اپنی راہ لیں گے۔ یہ تو آج بھی ۔۔۔ بہتر یہی ہے کہ ہم سب اپنے اپنے گھروں میں رہیں، آئسو لیشن اخیار کریں، سوشل ڈسٹینسنگ کے فارمولے پر عمل پیرا ہوں۔ اس وائرس کی عمر ہی کیا ہے، یہی کوئی چودہ دن، چودہ دن گزر جائیں تو وائرس غیر فعال ہو جاتا ہے اور جسم میں پیدا ہونے والی اور ہر آن نشو نما پانے والی انٹی باڈیز دوبارہ اس وائرس کو آپ پر حملہ آور نہیں ہونے دیں گی۔ ہاں اس سے طاقتور کوئی اور وائرس کسی شیطانی ذہن کی تخلیق سے مارکیٹ میں آ جائے تو ۔۔۔ جنگ اور محبت میں سب جائز ٹھیرتا ہے اور آثار بتاتے ہیں کہ Biological war کا آغاز ہو چکا ہے۔ اپنا خیال رکھیں، باقی اللہ مالک ہے!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
روزنامہ دن

۲۶ مارچ ۲۰۲۰ء

Related posts

Leave a Comment