ابو طالب انیم ۔۔۔۔۔۔۔ رخِ سیاہ سنوارا نہیں گیا مجھ سے

رخِ سیاہ سنوارا نہیں گیا مجھ سے
چمکتے دن بھی ستارا نہیں گیا مجھ سے

دعا کو ہاتھ بھی تھے اور فلک قریب بھی تھا

مَیں رو دیا کہ پکارا نہیں گیا مجھ سے

مَیں زندگی سے فقط ایک دن ہی چاہتا تھا

وہ ایک دن بھی گذارا نہیں گیا مجھ سے

یہ بات طے تھی مجھے صرف اس سے ہارنا تھا

وہ کھیل اس لیے ہارا نہیں گیا مجھ سے

کنویں میں چھوڑ تو آیا تھا یوسفِ دل کو

پر اس کے بعد ابھارا نہیں گیا مجھ سے

مَیں راکھ ہوں، کوئی صورت نہیں رہی میری

سو اب بھی روپ تمھارا نہیں گیا مجھ سے

تمام عمر مَیں سنتا رہا ہوں دل کی کہی

زباں کا قرض اتارا نہیں گیا مجھ سے

ٹھہر گیا ہوں مَیں اک میخ کی طرح دل میں

مگر وہ سوچ کا دھارا نہیں گیا مجھ سے

وہی تو اب مرا ہر زہر پی رہا ہے انیم

وہ ایک سانپ جو مارا نہیں گیا مجھ سے

Related posts

Leave a Comment