سید آل احمد ۔۔۔ بہشتِ دل میں خوابیدہ پڑی ہے

بہشتِ دل میں خوابیدہ پڑی ہے
وہ اک حسرت جو میری زندگی ہے

بہت خوش ہوں میں فن کی سرزمیں پر
مری نیکی بدوں نے لوٹ لی ہے

دریچے کھول دیتا ہوں طلب کے
مجھے جب بھی شرارت سوجھتی ہے

سیاست اب کہاں زنجیر ہوگی
یہ کشتی اب کنارے لگ رہی ہے

بہت نامطمئن ہے دل کی دھڑکن
کتابِ شوق تسکیں سے بھری ہے

مہینوں بعد دیکھا ہے تبسم
بہت دن میں غزل تازہ کہی ہے

بدن اب تک تر و تازہ ہے لیکن
سفر کی دھول آنکھوں میں جمی ہے

حکومت اک سخی کے ہاتھ میں ہے
غریب شہر کی حالت وہی ہے

لگا ہے جب بھی کوئی زخم تازہ
مرے فن کو توانائی ملی ہے

بہارِ نو کے دروازے نہ کھولو
خزاں سے عمر بھر کی دوستی ہے

مرے دل پر تو کوہِ غم گرا ہے
تمہاری آنکھ کیوں بھیگی ہوئی ہے

تجھے بھی نیند نے دھوکا دیا ہے
تھکن تیری بھی پلکوں پر جمی ہے

وہ کب کی جا چکی ہے اور دل میں
ابھی تک یاد کی کھڑکی کھلی ہے

جسے ہم سائباں سمجھے ہوئے تھے
وہی دیوار سر پر آ گری ہے

میں شہرِ دل میں اب تنہا ہوں احمدؔ
تعلق کی بصارت چھن چکی ہے

Related posts

Leave a Comment