اویس الحسن ۔۔۔ راکھ (ماہنامہ بیاض لاہور اکتوبر 2023 )

راکھ

۔۔۔۔۔۔۔

ان کے ہاتھوں میں وہی تیغِ ستم تھی لیکن
بعد صدیوں کے نمی آنکھ کی دیکھی نہ گئی
ہم نے پھر اپنی وفاؤں کو کیا تھا مصلوب
ناز پیکر میں کمی ہم سے ہی دیکھی نہ گئی
ہم سے پھر درد کہانی کی طلب ہے کس کو
کس نے بجھتی ہوئی پھر راکھ کریدی دل کی
کس نے زخموں پہ سرِ شام نمک سا چھڑکا
کس نے چپ چاپ سی اک شام وہ زخمی کر دی
جس کو معلوم نہ ہو بھاؤ تمناؤں کا
خواب نگری سے گزرنے کی سزا ملتی ہے
پھول مرجھائے ہوئے ملتے ہیں تو آنکھوں کو
اشک دریا کے بپھرنے کی سزا ملتی ہے
لفظ سادہ ہی سہی پھر بھی سمجھنے کے لئے
بات ظرفوں کے بدلنے سے بدل جاتی ہے
جیسے اک تیز برستی ہوئی بارش میں ادھر
بوند آنکھوں سے چرانے کو غزل جاتی ہے
جی میں آتا ہے کہ خود اپنی کہانی سن کر
ختم کر دیں اسے دیوار میں زندہ چن کر

Related posts

Leave a Comment